سب جانتے ہیں کرونا کی وباء اور اسکے دنیا بھر میں پھیلے اثرات کو۔ آہستہ آہستہ کرونا کے مریضوں کی تعداد ملک میں بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آج 31 مارچ 2020ء ہے۔ گھر میں رہتے ہوئے آج بارہواں روز ہے۔ بحیثیت ایک ذمہ دار زمین زادہ ہونے کے ناطے میرا یہ فرض ہے کہ میں اس موزی وائرس سے اپنے آپ کو بچاوں۔ اور اگر خدانخواستہ میں اسکا شکار ہوجاوں تو میں اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلوں اور فوری طور پر متعلقہ اداروں کو اطلاع کروں۔
میں اپنے سابقہ کالم میں یہ لکھ چکا ہوں کہ کرونا وائرس نے جو تباہی انسانوں پر پوری دنیا میں ڈھا دی ہے۔ جو قیامت مسلسل ڈھائے چلا جارہا ہے اس سے نپٹنے کیلئے اسی کے انداز میں ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔ جتنا جلد ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیں گے ہمارے لیے بہتر ہوگا۔ کرونا کا سامنا ہے، ہماری زمین ہے، ہم زمین زادے ہیں اور ہماری بقا کاسوال بھی ہے۔ موجودہ حالات میں میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ جغرافیائی سرحدوں کا معاملہ ختم ہوچکا ہے۔ اس موزی جان لیوا مرض کے تدارک کیلئےہمیں ایک ہوکر سوچنا ہوگا۔ اور ماہرین طب کی ہدایات پر من و عن عمل کرنا پڑے گا۔
دو گذارشات اور بھی ہے۔ کوئی گھر خاندان بھوکا نہ رہ جائے، راشن پہنچائیں۔ جن گھروں میں بچے ہیں ان گھروں میں دودھ بھی پہنچائیں۔ خدمت خلق سے بڑی کوئی عبادت نہیں۔ ہم زمین زادے ایک قبیلہ ہیں۔ چیریٹی کا کام ضرور کریں، اسکی تشہیر بھی کریں۔ ضرور کریں موجودہ دور میں نیک کام کی تشہیر بہت ضروری ہوگئ ہے۔ یہ اسلیے بھی ضروری ہے تاکہ دیکھنے سننے والے بھی اس طرف راغب ہوں۔ لیکن خدارا اس تشہیر میں کسی کی عزت نفس مجروح نہ کریں۔ ایسی نیکی، خدمت کا کوئی اجر نہیں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ خودداری ہر انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ خیال رکھا جائے۔ سب کام حکومت پر مت چھوڑیں۔ وہ اپنے تئیں اپنی بساط اور عقل کے مطابق کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشس میں ہے۔ لیکن ہم سب یہ جانتے ہیں کہ حکومتی کام کتنے کمال کے ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے محلوں میں اردگرد کا خیال رکھیں۔ دوسری گذارش یہ کہ اگر یہ لاک ڈاون طوالت اختیار کرتا ہے جس طرح کے حالات نظر آرہے ہیں، تو اشیائے خوردونوش میں کچھ کمی آسکتی ہے(خدا نہ کرے)۔ اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنے کیلئے ابھی سے چند اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلا اگر آپ دن میں تین مرتبہ چائے پیتے ہیں تو ایک مرتبہ کردیں۔ اسی طرح کھانا اتنا بنائیں جتنا قابل استعمال ہو، ضائع ہونے سے بچائیں۔ گھروں میں رہیں اور ہاتھ بار بار دھوئیں۔ مگر ہاتھ دھوتے وقت پانی کا استعمال کم سے کم کریں۔ ہم چھوٹے چھوٹے اقدامات سے موجودہ دستیاب وسائل کو زیادہ عرصہ تک استعمال کرسکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ منڈی بہاؤالدین کے ندیم افضل چن صاحب کو میں پیپلز پارٹی کے زمانے کا پسند کرتا ہوں۔ انکی شخصیت اور انداز میں جو دیسی پن ہے وہ میری پسندیدگی کا سبب ہے۔ اب وہ وزیراعظم عمران خان کے ترجمان بھی ہیں۔ انکا ایک وائس نوٹ آج کل بہت وائرل ہوا ہے جس میں وہ اپنے مخصوص دیسی پنجابی انداز میں اپنے حلقے کے کسی مختیار نام کے شخص سے مخاطب ہیں۔ اور اسے موجودہ حالات کے پیش نظر گھر میں بیٹھنے کی تلقین کررہے ہیں وائس نوٹ سب نے ہی سن لیا ہوگا۔ اس وائس نوٹ میں مختارے کاجواب نہیں ہے۔ گرچہ چن صاحب کی آواز اور میسیج قوم کیلئے ان حالات میں مسکراہٹ کا باعث بھی بنا ہے لیکن خاکسار نے مختارے کے ممکنہ جواب کو مزاح کے بجائے ایک تلخ حقیقت کے طور پر ذیل میں پیش کیا ہے۔ مختارے کا نام تشبیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس سے مراد ہم عوام ہیں۔ عوام کا ہرشخص مختیار ہے۔ گذارش ہوگی کہ اگر میرے قارئین میں سے کسی نے چن صاحب کا وائس نوٹ نہیں سنا تو جواب پڑھنے سے پہلے وہ لازمی سن لے۔
(نوٹ۔ مختارے کا جواب بھی پنجابی زبان میں ہی تحریر کیا گیا ہے)
وے مُختاریا! وڑ جانی دیا
ہور توں رہندا نہی
گھر وی بیندا نہی
ایس حکومت تے نا رہ
گھر بے گھر بے
وے مختاریا! وڑجانی دیا
مختارے دا جواب،
چن صاب!
میں وڑ جانی دا سہی
گھر نہی بے سکدا
اگے پِچھے بُھک اے
بچے روٹی منگدے
میں مزدوری نہ کراں
تے کی کراں
میں وڑ جانی دا سہی
اِتھے بجلی گیس آندی کوئی نہی
اِیتھے کچے مکان
لِیراں وِچ لپٹیا انسان
تے گھر ٹکا وی کوئی نہی
میں وڑ جانی دا سہی
گھر کیویں بے جاواں
دوا دارو نہی پورا پیندا
کتھے جاواں
ہتھ دوھنڑ لئی پانڑی وی نہی
تے کہندے کرونا کرونا
اے کرونا غریب امیر نہی وینھدا
رنگ نسل شکل وی نہی وینھدا
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی
ایس توں ود نہی کوئی ہرجائی
مندر، مسیتاں، چرچ، گوردوارے
اِینے بند کرادیتے سارے
میں وڑ جانی دا سہی
تسی دسو چن صاب!
میں بُھک نال مرجاں؟
اسی گھراں وچ بے جانے آں
سرکار ساڈی بھک نوں ویکھے
بچے بھکے بلکتے ویکھے نہی جاندے
کرونا تو مرنا یا بھک توں مرنا
ہنڑ وائرس مارے یا بھک مارے
وے چَن صاب تُسی دسو
میں کی کراں
میں خُود مختار نہی
میں نا دا مختار آں