جون لینن بیسویں صدی کے وسط کے زمانے کے ایک ایسے انگریز گلوکار گذرے ہیں جوکہ سانگ رائیٹر بھی تھے اور انہیں تاریخ میں امن ایکٹویسٹ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ انکے بینڈ beatles کو کمرشل بنیادوں پر سب سے زیادہ شہرت یافتہ بینڈ مانا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی سماج ہو اس میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے کہ ایک پیس ایکٹویسٹ ہونے کی جزا بہرحال ملتی ہے۔ ہر سماج کی طرح لینن کو جدید و تہذیب یافتہ سماج (امریکہ) نے جزا کے طور پر صرف چالیس سال کی عمر میں گولی مار کر قتل کرڈالا۔ اصل میں مَیں نے لفظ جزا کا استعمال گرچہ طنزاً کیا مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی شخص کو محض اسکی باتوں سے اختلاف کی بنیاد پر جان سے ماردینا اسکو جزا دینے کے مترادف ہے۔ مارنے والا مرنے والے کے کہے کو ہمیشہ کیلیے اَمر کردیتا ہے۔ ہمارے سماج میں بھی اس قسم کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں شہید محسن نقوی، شہید خرم ذکی، استاد سبط جعفر اور ایک ہفتہ قبل ہی شہید علی عابدی کی شہادت میرے نزدیک ان کے افکار کو امر کرگئی۔ جون لینن کے ساتھ آج سے انتالیس سال قبل بھی یہی کچھ ہوا۔
اب آتا ہوں دوسری طرف کہ آج جون لینن کا تذکرہ کرنے کی وجہ تسمیہ کیا بنی۔ میرے ایک نہایت ہی محترم ترقی پسند دوست ہیں محترم مدثر بھارا صاحب Mudassar bhara جو کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور سرائیکی زبان کے ایک عمدہ شاعر بھی ہیں انہوں نے جون لینن کے ایک شہرہ آفاق گانے کا سرائیکی زبان میں شعری ترجمہ کیا اور خاکسار کو انباکس کیا۔ اس خوبصورت انداز میں جون لینن کے کلام کو سرائیکی زبان میں حوالہ قلم کرنے پر جہاں محترم بھارا صاحب نے لینن کو خراج تحسین پیش کیا وہاں راقم التحریر نے یہ ضروری سمجھا کہ اپنے طالب علمانہ انداز میں نہ صرف جون لینن کا مختصر تعارف اپنے قارئین کو کرایا جائے بلکہ ساتھ ہی محترم بھارا صاحب کا وہ سرائیکی ترجمہ بھی آپ سب سے شیئر کیا جائے۔ اس حوالے سے محترم بھارا صاحب سے پیشگی اجازت بھی لے لی گئی ہے۔
سب سے پہلے جون لینن کا کلام (نظم) انگریزی زبان میں پیش خدمت ہے۔ عنوان ہے "Imagine"
Imagine there's no heaven
It's easy if you try
No hell below us
Above us only sky
Imagine all the people living for today
Imagine there's no countries
It isn't hard to do
Nothing to kill or die for
And no religion too
Imagine all the people living life in peace, you
You may say I'm a dreamer
But I'm not the only one
I hope some day you'll join us
And the world will be as one
Imagine no possessions
I wonder if you can
No need for greed or hunger
A brotherhood of man
Imagine all the people sharing all the world, you
You may say I'm a dreamer
But I'm not the only one
I hope some day you'll join us
And the world will be as one
سرائیکی زبان میں اسکا ترجمہ شعری انداز میں محترم مدثر بھارا کی قلم سے پیش خدمت ہے۔ ۔ ۔ ۔
ایویں سوچو بھلا
ایویں سوچو بھلا
جو اتھاں کوئی جنت نئیں
ایویں سوچنڑاں کوئی مشکل نئیں
جوساڈے پیریں تلے کوئی دوزخ نئیں
ساڈے سر دے اتے صرف آسمان ہے
ایویں سوچو بھلا
جو اساں سبھ لوک
بس ایں ویلے جیندے ہیسے
ایویں سوچو بھلا
جو اتھاں کوئی سرحداں نہ ہوون
ایں سوچنڑاں کوئی مشکل نئیں
جو اتھاں کہیں کوں قتل کرنڑ اتے مرنڑ دی
کوئی وی وجہ نئیں
کوئی مذہب وی نئیں
ایویں سوچو بھلا
جو اتھاں سبھ لوک سکھ نال
جیندے ہوون
ایویں سوچو بھلا
جو اتھاں کہیں دی
کوئی شئے مالکی نئیں
عجب کیا ہے جو تساں
ایں کر گھنو
جو اتھاں کہیں کوں کوئی لوبھ یا بھک نئیں
کہیں دی کوئی غرض وی نئیں
جو اتھاں سبھ لوک ہک برادری تھی ونجن
ایویں سوچو بھلا
جو ایں دنیا تے سبھ لوک
ہک تھی ونجن
تساں ایں آکھو
جو میں ہک خواب ونڑدا وداں
پر میں کوئی کلہا نمہیں
میکوں آس ہے
جو ہک ڈیہنہ تساں سارے
میڈے کٹھے ہوسو
اتے ایہہ دنیا وی ہک تھی ویسی
جون لینن کی نظم کا یہ سرائیکی ترجمہ نہایت شائستگی اور عمدگی سے کیا گیا۔ بلاشبہ سرائیکی زبان کی مٹھاس نے اس مشہور زمانہ نظم کو چارچاند لگا دیے ہیں۔
خاکسار نے اسی نظم کے مرکزی خیال کو استعمال کرتے ہوئےاردو میں ایک نثری نظم لکھنے کی جسارت کی ہے آپ اس کو اوپر لکھی گئی لینن کی نظم کا اردو ترجمہ بھی کہہ سکتے ہیں، پیش خدمت ہے۔ ۔ ۔ ۔
آؤ تصور کی اک دنیا میں۔ ۔ ۔ ۔
چلو میرے ساتھ چلو
یہاں کوئی ملک نہیں
کوئی سرحد نہیں
کوئی جنت نہیں کہ لالچ ہو جسکا
کوئی دوزخ نہیں کہ کہ خوف ہو جسکا
بالا اک فلک ہو
زیریں اک زمیں ہو
نہ کوئی غرض ہو
نہ کوئی غرضی ہو
نہ کوئی قاتل ہو
نہ کوئی ظالم ہو
آؤ تصور کی اک دنیا میں۔ ۔ ۔ ۔
جہاں ڈر سے کوئی نہ جیے
جہاں بھوک سے کوئی نہ مرے
جہاں سچ کا صرف سویرا ہو
جہاں نہ کوئی وڈیرہ ہو
جہاں امن کا صرف بسیرا ہو
تم کہو گے میں خواب دیکھتا ہوں
یہ خواب ہی تو ہے
چاہ ہے کہ میں وہاں رہوں جہاں
کوئی اور مذہب نہ ہو
ایسا جہاں آباد ہوتا ہے اکثر میرے تصور میں
جہاں تمہیں لے آیا ہوں
یہاں مذہب انسانیت ہے
سکھ ہے چارسُو
امن ہے چارسُو
اس خوابیدہ دنیا میں نہیں ہوں اکیلا
اک بھیڑ ہے درویشوں کی
سَرپھروں کی
دیوانوں کی
مجذوبوں کی
اس خوابیدہ دنیا میں
کوئی اونچا نہیں
نیچا نہیں
طبقات نہیں
ناچاقی نہیں
کمزور نہیں
طاقتور نہیں
شکار نہیں
شکاری نہیں
آؤ تصور کی اک دنیا میں۔ ۔ ۔ ۔
آہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ خواب حقیقت ہوجائے