1. ہوم/
  2. غزل/
  3. آغر ندیم سحر/
  4. بجھتے ہوئے چراغ کی وحشت میں کاٹ دی

بجھتے ہوئے چراغ کی وحشت میں کاٹ دی

بجھتے ہوئے چراغ کی وحشت میں کاٹ دی
ہم نے شب حیات اذیت میں کاٹ دی

رخصت کے وقت آپ کو جلدی تھی کس قدر
یعنی ہماری بات بھی عجلت میں کاٹ دی

تیرے بغیر زیست گزرنا محال تھی
تو نے کہا تھا کاٹ، مروت میں کاٹ دی

میں چاہتا تھا شہر سے بنتی، نہیں بنی
اپنی تمام عمر ہی ہجرت میں کاٹ دی

آدھی تو عمر تیرے لیے ہم نے کی خراب
باقی جو رہ گئی تھی محبت میں کاٹ دی