ہم درختوں کو اگر خواب سنانے لگ جائیں
ان پرندوں کے تو پھر ہوش ٹھکانے لگ جائیں
آخری پل ہے ذرا بیٹھ کہ باتیں کر لیں
عین ممکن ہے پلٹنے میں زمانے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کہ چپ چاپ سرِ بزم رہیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی گیت سنانے لگ جائیں
ہم نوافل میں ترے نام کی تسبیح کریں
یوں بھی مسجد میں ترا ہجر منانے لگ جائیں
کوزہ گر تم سے مرے خواب نہیں ٹھیک بنے
بس یہی سوچ کے پھر چاک گھمانے لگ جائیں
حضرتِ قیس ترے خواب کی بیعت کرکے
ہم کسی دشت میں پھر نام کمانے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کہ چپ چاپ ترا ہجر سہیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں
ہم ہیں تنہائی کے مارے ہوئے کمرے کے مکیں
جو بھی مل جائے اسے دوست بنانے لگ جائیں
ہم نئے دور کے عاشق بھی عجب ہیں کہ ندیم
جو بھی مل جائے اسے شعر سنانے لگ جائیں