ایک مدت تک وفا کی جستجو کرتے رہے
ہم شب ہجراں اسی سے گفتگو کرتے رہے
جن کی خاطر وقف تھے شام و سحر، صد حیف ہے
میری شہرت کو وہی بے آبرو کرتے رہے
تیرے چہرے کی تلاوت ہی ہمیں مقصود تھی
اس لیے اشکوں سے اپنے ہم وضو کرتے رہے
گردشِ دوراں سے میں خود کو بچاتا کس طرح
جب مجھے حالات غم کے روبرو کرتے رہے
ان کا ملنا یا نہ ملنا بات یہ قسمت کی ہے
جن کی خو کی تھی کبھی، ان کی ہی خو کرتے رہے
کرکے غم سے آشنا رخصت جہاں سے جو ہوا
تذکرہ اس کا جہاں میں کوبکو کرتے رہے
پھر بھی میں تو جانب_منزل رواں آغر رہا
ہر قدم پہ وار گو مجھ پر عدو کرتے رہے