تمہیں ہم سے ہی سارا مسئلہ ہے
لو ہم منظر سے ہٹ جانے لگے ہیں
تمہاری چشم حیرت کے کنارے
ذرا سی دیر سستانے لگے ہیں
وہ اتنی بے دلی سے مسکرایا
ہمارے پھول مرجھانے لگے ہیں
پرندے خواب دریا اور جگنو
مری دنیا کو مہکانے لگے ہیں
ہمیں غدار کہتے تھے جو کل تک
ہمارے ڈر سے مر جانے لگے ہیں
اندھیرا بڑھ گیا ہے زندگی میں
ہم اک دوجے سے ٹکرانے لگے ہیں
اداسی کے سبھی دیوار و در پہ
تمھارے سائے منڈلانے لگے ہیں
مرے لوگوں کو آغر کیا ہوا ہے؟
یہ کیوں سورج سے گھبرانے لگے ہیں؟