مختصر سی مری کہانی ہے
دل میں چاہت تری پرانی ہے
میں جو ہنستا ہوں سانس لیتا ہوں
تیری چاہت ہے مہربانی ہے
تو نے جاتے سمے جو درد دیا
وہ تری آخری نشانی ہے
یہ رقیبوں کی ہے کوئی سازش
تیرے دل میں جو بدگمانی ہے
مجھ پہ گزری ہے جو شبِ ہجراں
ان کو روداد یہ سنانی ہے
تیری نظرِ کرم کا فیض ہے یہ
میرے جذبوں میں جو روانی یے
خوں ہے آغر کی آرزووں کا
اس کی آنکھوں میں جتنا پانی ہے