پھول دیکھو یا کہیں پہ خار دیکھو چپ رہو
صاحبانِ علم و دانش میری مانو چپ رہو
خوف کے بحر تلاطم میں ہیں ہچکولے بہت
ڈوب بھی جاؤ تو میرے نا خداؤ چپ رہو
مار ڈالے جاؤ گے غدار کہہ کر ایک دن
میری مانو، جھوٹ لکھو، جھوٹ سوچو، چپ رہو
باغباں کے ہاتھ میں ہے ایک پژمردہ چراغ
پیڑ سارے جل بھی جائیں تو پرندو چپ رہو
جو مُحِبِّ قوم ہو اور اک کہانی کار بھی
اس سے تم یہ کہہ رہے ہو جھوٹ لکھو، چپ رہو؟
مار دیتے ہو مرے معصوم لوگوں کو یہاں
پھر یہ کہتے ہو ہمیں تم کچھ نہ بولو چپ رہو
حکم ہے مجھ کو فَقِیہِ شَہْر کا آغر ندیم
ظلم سہہ کر بھی نہ اپنے ہونٹ کھولو چپ رہو