مری منزل کو جو گہنا رہی ہے
کسی کی یاد آڑے آ رہی ہے
اثر اس کی محبت کا ہے شاید
مجھے ہر سانس اب تڑپا رہی ہے
گرے گی برق جانے کس کے گھر پر
جو پیچ و تاب اتنے کھا رہی رہے
ترا بیمار دن دیکھے گا کیسے؟
یہ کالی رات بڑھی جا رہی ہے
لب و لہجے میں کچھ ایسی تپش تھی
کہ جیسے شعلے وہ برسا رہی ہے
اسی کی بددعاؤں کا اثر ہے
مری جو عمر بڑھتی جا رہی ہے
جہاں جاؤں مجھے لگتا ہے آغر
مری قسمت مجھے سلجھا رہی ہے