ہرسال 10 دسمبر عالمی یومِ انسانی حقوق کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی دن 1948ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی میثاق کی باضابط طور پر منظوری دی تھی۔ اور 1950میں جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 423(v) کے ذریعے 10 دسمبر کو عالمی یومِ انسانی حقوق منانے کا باضابطہ فیصلہ کیا۔ اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر دُنیا میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے حقوق، مفادات کے تحفظ کا امین بنایا گیا۔ جس میں ہر انسان کے حقوق محفوظ ہیں۔ رحمت العالمین ﷺ نے ایسے وقت میں انسانیت کا پیغام دیا تھا جب یورپ مکمل اندھیرے میں تھا، اسلام دُنیا کے سامنے جو عالمی منشور پیش کیا وہ کسی فکری کشمکش، انقلاباتِ زمانہ، تحریکوں کے دباؤمیں نہیں بلکہ حقوقِ انسانی کے جملہ اُصول و احکامات وحی الٰہی کے چشمہ صافی سے پھوٹے ہیں۔ شہرتِ محمدی ﷺ کے سنہرے اصول، شاندار روایات، اعلیٰ اقدار، مساوات، عدل، صداقت کی نظیر دُنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کر سکی۔ خائق نے مخلوق کی پیدائش اور وسائل برابر رکھے ہیں ان کا استعمال مساوی ہونا ضروری ہے۔ بنیادی طور پر انسانی ضروریات جن میں امن، انصاف، رہائش، صحت، صاف پانی، خوراک، پناہ گاہ، غیر جانبدار معلومات تک رسائی، تعلیم شامل ہیں۔ آج انسانی حقوق کا دن 71برس کا ہو چکا۔ لیکن شومئیِ قسمت آج بھی دُنیا کے تمام حصوں میں انسانی حقوق اور بنیادی انسانی وقار کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ آج بھی کشمیر، فلسطین، افغانستان، سیریا، برما، ایراق، لیبیاسمیت دُنیا کے مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں یہاں تک کہ تڑپتی، سسکتی انسانیت کو زندہ درگور ہوتا دیکھتے ہوئے انسانیت تڑپ تڑپ کہ جان دے رہی ہے۔ ایک مقبوضہ کشمیر کو ہی دیکھ لیجیے۔ اقوامِ متحدہ کی نئی جاری ہونے والی رپورٹ میں بھی یہ بات واضح کی جا چکی کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتی عوام پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ بھارتی مسلح فوج وادی میں طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ بیلٹ گن اور دیگر خطرناک ہتھیاروں کے استعمال سے ظلم و بربریت کی تمام حدود پھلانگ دی گئیں۔ 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد 2018 تک 130 سے 145 کشمیری شہید کر دئیے گے۔ اس سب کے باوجود آج انسانی حقوق کی تنظمیوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ وادی کشمیر میں بچے، عورتیں، بوڑھے تڑپ تڑپ کہ دم توڑ رہے ہیں، زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن ان کی طرف توجہ کے بجائے محض بیانات ہی داغے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر جہاں ایشیائی ممالک میں پائیدار امن کا ضامن ہے وہاں سات دہائیوں سے ظلم کی چکی نیچے انسانیت پس رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظوری کے ساتھ 10 دسمبر 1948ء کو انسانی حقوق کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا جو انسانی حقوق کو بہتر بنانے اور ان کے تحفظ کے حوالہ سے ایک بڑی اور پہی کامیابی تھی۔ بنیادی طور پر انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ایک سنگِ میل ہے جس کے مطابق ہر انسان ذات، پات کے طور پر مکلف ہے۔ نسل، رنگ، مذہب، جنس، زبان، مذہبی، سیاسی، قومی، سماجی، حقیقت، ملکیتِ پیدائش یا دوسری حیثیت کی مکمل آزادی کی اس دستاویز کی دُنیا کی پانچ سو زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ قبل ازیں انسانی حقوق سے متعلق کوئی ایسا بین الاقوامی قانون نہیں تھا۔ اور پھر وطن عزیز میں شہریوں اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدے کے طور پر 1973ء کا آئین شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے پہلے باب میں موجود 8 سے 28 تک دفعات بنیادی حقوق سے متعلق ہیں۔ آئین کے دفعہ تین کے تحت ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آئین پاکستان کے تحت شہریوں کے بنیادی حقو ق کے تحفظ کے لئے عدلیہ، نیشنل کمیشن فارہیومن رائٹس، سینٹ کی انسانی حقوق کی فنگشنل کمیٹی اور معزز سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل موجود ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے 2004 سے 2016ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق غیرت کے نام پر قتل 15,222، خواتین اغوا ء کے 5508، 35,935 خود کُشی کے واقعات رونما ہوئے۔ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق قانون کی حکمرانی کے حوالہ سے پاکستان 113 ممالک میں سے 106 نمبر پر ہے۔ کتنے بچے سکول جانے سے محروم، تھر میں غذائی قلت، اموات کا لامتناعی سلسلہ، مہنگائی کا طوفان غرببوں کے لیے وبالِ جان بن چکی۔ بنیادی ضروریات کی فراہمی اور شہریوں کے حقوق کا خیال رکھنا ریاست کی اولین فرائض میں شامل ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رحجانات، قلیل مدتی سوچ، بے یقینی کی کیفیت، میرٹ کا فقدان، روزگار کے کم مواقع، مساوی حقوق کا فقدان، محروم طبقات کے لئے سکڑتی سیاسی گنجائش یہ وہ معاشرہ کا ناسور ہیں جو ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو انتہا پسندی تک جا پہنچتے ہیں اور زندہ لوگ اپنی ہی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ان عوامل کے ہوتے کبھی بھی مساوی حقوق، ملک کی ترقی کا خواب شرمندہِ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ان عوامل کا سدِ باب کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ان کی جگہ رواداری، امن، انسانی حقوق کا احترام، قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم 71 سال سے انسانی حقو ق کا عالمی دن جوش و جذبے سے منا رہے ہیں پھر بھی بنیادی انسانی حقوق کو شدید شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جہاں امن کی فاختہ کے پَر جل رہے ہیں دُنیا انسانیت کے ناطے قریب ہونے کے بجائے بھوک، افلاس، نفرتوں، مذہبی منافرت، دہشت گردی کی لحد میں دفن ہونا شروع ہو گئی، انسانی حقو ق کے دن کا مدعا انسانی عظمت و وقار کے دھارے میں لانا ہے تو پھر نفرتوں کا طوفان کیوں امڈ رہا، انسانیت کا قتلِ عام آئے روز کیوں بڑھ رہا۔ انساانیت کی تذلیل کی بھیانک آگ کیوں پھیل رہی، حق حقدار تک کیوں نہیں پہنچ رہا؟ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کا تماشا کیوں بن رہا؟ آج انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیں جھنجوڑ رہا ہے کہ آج ہم تجدیدِ عہد کریں۔ انسانی حقوق ہم سب کے لیے ہیں جنہیں کامیاب بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں قیام امن اور دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑاہونا ہو گا۔ دہشت گردی، ناانصافیوں اور کرپشن کے خاتمے کواولین ترجیح بناناہوگا۔ کشمیر کی آزادی یقینی بناناہوگی۔ مساوات انصاف اور آزادی کا پرچم بلند کرنا ہوگا۔ جب بھی، جہاں بھی انسانیت کی قدروں کی چھوڑدیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق صلب ہوجاتے ہیں۔ آج ہم تجدید کریں کہ جو اسلام نے انسانی حقوق کا تصور دیا ہے مکمل یگانگت، یکسانیت، ہم آہنگی، عدل و انصاف احترامِ انسانیت ان پر عمل کریں ہم ان حقوق کو دُنیاکے سامنے واضح کرنے کے بعد خود ان حقوق کو نافذ کر کے عملی نمونہ پیش کریں۔ یقیناً ہم اپنے اس قدم سے سسکتی وبلکتی دُنیا کی مدد کر سکتے ہیں۔ آج کا دن اقوام عالم کو جھنجوڑ رہا ہے کہ ایک طرف تو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر، برما، روہیگنا میں انسانیت کا قتل عام ہی نہیں بلکہ انسانیت کو شرما دینے والے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان پر خاموشی مجرمانہ غفلت ہے۔ اس پر دوہرا معیار ترک کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں یہی آج کے دن کا پیغام ہے۔