1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. بیروزگاری ایک سنگین مسئلہ!

بیروزگاری ایک سنگین مسئلہ!

بے روز گاری پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، بے روز گاراُس شخص کو کہا جاتا ہے جو کوئی کام کرنا چاہتا ہو اور اس کی اہلیت بھی رکھتا ہو لیکن اسے کام نہ ملے۔ پاکستان میں اس وقت 25 فیصد سے زائد افراد بے روزگار ہیں اور بے روزگاری کی شرح 9.1 فیصد سے زائد ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنل ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوجوان مردوں اورخواتین کی شرح برابر ہے۔ 70 فیصد نوجوان پڑھے لکھے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ 29 فیصد کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے100 میں سے 64 نوجوان شہروں میں آباد ہیں۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15سے 24سال کی عمر کے 10.8فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد ممالک کے ساتھ موازنہ کریں تو وطنِ عزیز میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے یہ شرح کچھ یوں ہے ؛ سنگار پور 1.8 فیصد، بھوٹان 2.4 فیصد، مالدیپ اور نیپال میں 3.2 فیصد، بھارت 3.5 فیصد، کوریا 3.7 فیصد، بنگلہ دیش 4.1 فیصد، چین 4.6 فیصد، سری لنکا 5 فیصد ہے۔ پاکستان میں بے روزگاری ترقی پذیر ممالک سے بھی کئی گناء زیادہ ہے جیسے کمبوڈیا 0.3 فیصد، بیلاروس 0.5 فیصد، میانمار 0.8 فیصد ہے۔ وطنِ عزیز میں بے روزگاری کی شرح ؛ جولائی 2008، 5فیصد، جولائی 2009، 5.3 فیصد، جولائی 2010، 5.6 فیصد، جنوری 2011، 6 فیصد، جنوری 2012، 6 فیصد، جنوری 2013، 6.5 فیصدرہی جو کہ اب 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ شہروں میں 10.1 فیصد جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 16.3 فیصد تک ہے۔ سال 2014-15 کے اختتام پر بے روزگار ی کا تناسب 6.3 فیصد، سندھ 4.6 فیصد، کے پی کے 7.7 فیصد، بلوچستان 3.4 فیصد۔ 2014-15بے روزگاری 5.9تھی جس کا تناسب 2003-4 میں 7.7 تھا۔ 2003-4 پنجاب 7.4 فیصد، سندھ 6 فیصد، بلوچستان 8.2 فیصد، کے پی کے 12.9 فیصد تھا۔ پاکستان میں خواتین کی بے روزگاری کا تناسب 2003-4 کے پی کے 29.4 فیصد، بلوچستان 27.7، سندھ 19.6 فیصد، 10سالوں کے دوران کے پی کے میں یہ شرح 15.8فیصد ہوئی۔ 2003-4 میں خواتین کی بے روزگاری 12.8 فیصد، 10 سال بعد یہ 9 فیصد تک پہنچی۔ بمطابق لیبر فورس سروے 2016(IRP) گزشتہ 13سالوں میں بے روزگاری کی سطح زیادہ ہو ئی۔ جن میں تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں۔ اور پھر 2017ء میں بے روزگاری کا طوفان مزید تیز ہو ا۔ 2018 میں کئی ایسے افراد جو پرائیوٹ سکیٹر میں کام کرتے تھے۔ پیپرز کے مہنگے ہونے اور ٹیکس کی زد میں آکر وہ لوگ بھی بے روزگار ہو چکے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہرسال دس لاکھ افراد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ پاکستانی اشیاء ترقی یافتہ ممالک کی اشیاء کے مقابلے میں غیر معیاری ہیں اندرون ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی ملک پاکستان میں کام کرنے والے عمر کے 35 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو اگلے پانچ سال کے دوران 45 لاکھ روز گار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اضافی ملازمتیں پیدا نہیں کی گئیں تو 2050ء تک 4 کروڑ 30 لاکھ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پرائیوٹ سکیٹر سکولز، کالجز، فیکٹر یوں، ورکشاپ میں ماہانہ معمولی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ اور کئی غریب تعلیم کے باوجود گھریلو ملازمت کرنے پر مجبور جن پر تشد د بھی کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اندازوں کے مطابق پاکستان کو اگلے 30 سالوں تک ہر سال بغیر کسی وقفہ کے 9 لاکھ ملین ملازمتیں پیدا کرنا ہوں گی۔ یو این ڈی پی نے واضح کیا ہے کہ ملک کے بعض شہری مراکز یا معیشت کا کوئی سیکٹر یہ تمام ملازمتیں پیدا نہیں کر سکتا اور اس کے لیے معیشت کے ہر سیکٹر، ہر شہر، قصبہ اور گاؤں کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ زرعی سیکٹر پاکستان میں روزگار پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے جس کے ذریعے 42.3 فیصد روزگار پیدا ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مینوفیکچرنگ، سروسز انڈسٹری، ٹوارزم میں بھی روزگار کے بے پناہ مواقع پائے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پاکستان میں 15 سے 24 سال عمر کے 10.8 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ پاکستان کے 36 فیصد نوجوان اپنے مستقبل سے ناامید ہیں، 16 فیصد کی رائے ہے کہ مستقبل میں کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ ایک سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم کے 16 فیصد، چھ سے دس سال کی عمر تک 40 فیصد، گیارہ سے 12 سال کے درمیان کے لئے صرف نو فیصد اور 12 سال سے زائد عمر کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے صرف چھ فیصد مواقع حاصل ہیں۔ 29 فیصد افراد کو تعلیم کی سہولتیں ہی میسرنہیں۔ اسکولوں میں داخلے کی شرح ایک فیصد بھی نہیں بڑھ رہی۔ انرولمنٹ کی موجودہ رفتارمیں اضافہ نہ ہوا تو سکولوں سے باہر بچوں کی شرح صفر کرنے کا ہدف پورا کرنے میں 60 سال لگ جائیں گے جبکہ 2030 تک تمام بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے انرولمنٹ کی شرح تین اعشاریہ آٹھ (8.3 )فیصد سالانہ بڑھانی ہوگی۔ بے روز گار افراد ملک میں اپنے اور دوسروں کے لیے مختلف سماجی و معاشی مسائل پیدا کرتے ہیں روزگار کی عدم دستیابی کی کئی وجوہات ہیں۔ بے روز گاری کی سب سے اہم وجہ کا تعلق شعبہ زراعت سے ہیں زراعت پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہے قومی آمدنی میں اس کا حصہ 30 فیصد ہیں اور ملک کے 48 فیصد عوام اس شعبہ سے براہ راست اور بالاواسطہ طور پر روزگار حاصل کر رہے ہیں معشیت کا اتنا بڑا شعبہ ہونے کے لحاظ سے یہاں مزید بہت سے لوگوں کی کھپت ہو سکتی ہیں لیکن یہ سیکٹر پسماندگی کا شکار ہے اس سیکٹر میں بے روز گاری دو اطراف سے پائی جاتی ہے ایک تو زراعت کے میدان میں جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کے استعمال کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔ دوسرا یہ کہ زراعت کے میدان میں کھاد، زرعی دوائیں، بیج، زرعی تعلیم و زرعی اصلاحت کی عدم موجودگی میں یہ شعبہ بہت پیچھے ہے۔ بے روز گار لوگوں کی یہاں کھپت نہیں ہو رہی۔ شعبہ صنعت معشیت کا دوسرابڑا سیکٹر ہے قومی آمدنی میں اس کا حصہ تقریبان40 فیصد ہے شعبہ صنعت کو بھی ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کو روزگار فراہم کرنا چاہیے لیکن ہماری صنعتیں بہت پسماندہ ہیں یہ بات بھی دُرست ہے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں کل 34 کارخانے تھے اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن اگر ہم معاشی میدان میں ترقی کرنے والے ممالک جیسے جاپان۔ کوریا۔ چین۔ ہانگ کانگ۔ تائیوان۔ سنگاپور۔ انڈونشیا۔ ملائشیا۔ بھارت سے موازنہ کریں تو ہم ان کے مقابلے میں اس میدان میں بہت پیچھے ہیں ملک میں ہزاروں صنعتی کارخانے بند پڑے ہیں مختلف وجوہات کی بنا پر نئی فرمیں اور صنعتیں لگنے کی بجائے چلتے ہوئے کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں بے روزگاری کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ہماری زرعی اور صنعتی اشیاء کی بین الاقوامی منڈیوں میں مانگ بہت کم ہے کیونکہ اور بیرون ممالک میں طلب کم ہونے کی وجہ سے ان سے وابستہ صنعتوں اور اداروں میں بھی وسعت نہیں آرہی۔ چنانچہ زرعی اور صنعتی شعبوں سمیت دیگر سیکٹرز میں لوگوں کو روز گار نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری ہے۔ 40 لاکھ سے زائد آبادی میں 80 ہزار سے زیادہ لوگ حکومت آزاد کشمیر کے ملازم ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پرائیویٹ انویسٹ منٹ بھی پھل پھول نہیں پا رہی جس کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آزاد کشمیر کی ایک جامعہ سے ہر سال تین ہزار سے زائد طلبہ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ آزادکشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں (یو این سی آئی پی) کے تحت پاکستان کے زیر انتظام ہے جہاں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح اس وقت تقریبا چھ فیصد ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے یہ شرح ایسے ہی چلی آ رہی ہے، ماضی بعید پر نظر دوڑائی جائے تو 30 سال سے پاکستان میں بے روزگاری کی شرح اوسطا یہی رہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے اندر اس بے روزگاری کی شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ہمیں بے روزگاری کے حوالہ سے جامعہ حکمتِ عملی مرتب کرنا ہو گی۔ تاکہ وطن سے بے روزگاری کو ممکنہ حد تک کم کیا جاسکے۔ کیونکہ بے روزگاری سے ہی جرائم کا آغاز ہو تا ہے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔