جدید ٹیکنالوجی نے جوں جوں ترقی کی منازل طے کی دُنیا گلوبل ویلج بن چکی تو دوسری طرف اس کے منفی استعمال سے انسان کی انسانیت، اخلاقیات، محبت، الفت، شرافت، دیانت داری، عبادت، ریاضت، رحم، ہمدردی، ادب، احترام، اطعام، اکرام، غریب پروری میں کمی ہو رہی ہے۔ انسانیت کی جگہ اب مادیت لے رہی ہیں۔ باقی جرائم کے ساتھ ہی ڈیجیٹل بھتہ خوری کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے 2014 میں ڈیجیٹل آلات پر 45 گناحملوں میں اضافہ ہوا۔ سائبر بھتہ خوری کے لیے رانسم ویئر کا استعمال کیا گیا جس میں 2014 میں 113 گنا اضافہ ہوا۔ جب کہ کرپٹورینسم وائیر حملوں میں 4000 گناء اضافہ ہوا۔ احتیاطی تدابیر سے ہی بچاو ممکن ہو سکتا ہے لیکن آئی ٹی یو کی رپورٹ کے مطابق سائبر حملوں کے متعلق احتیاط تدابیر اختیار کرنے والے ممالک میں امریکہ پہلے، کینیڈا دوسرے، ملائیشیاء اور آسٹریلیا تیسرے نمبر، نیوزی لینڈ، ناروے چوتھا نمبر، بھارت، برازیل، ایسٹونیا، جرمنی، جاپان، کوریا، اور برطانیہ پانچویں نمبر پر، جب کہ چین 14 نمبر، سری لنکا، بنگلہ دیش 19واں نمبر، جب کہ اس درجہ بندی میں پاکستان، شام، افغانستان، قازقستان، سینسیگال، سلووینیا، سمالو، ملاوی، بوسینا وغیرہ کا نمبر 23ہے۔ اور پھر سائبر سیکورٹی انڈیکس کے علاقائی تجزیے کے مطابق ایشیاء بحرالکاہل خطے میں آسٹریلیا اور ملائیشیاء پہلے نمبر پر، نیوزی لینڈ دوسرے نمبر، چین چھٹے نمبر، سری لنکا ساتویں نمبر، ایران اور بنگلہ دیش گیارہویں نمبر، افغانستان بارہویں نمبر پر جب کہ پاکستان تیرہویں نمبر پر ہے۔ پہلے سائبر کرائم کے لیے ای میلز کو استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا نیٹ ورک کو اس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اب موبائل فون پر بھی سائبر کرائم کا حملہ ہو سکتا ہے۔ سائبر کرائم ہر ایسی سر گرمی ہے جس میں کمپیوٹر یا نیٹ ورکس کو مثبت انداز میں استعمال کے بجائے انہیں ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مجرمانہ، غیر قانونی سرگرمیاں کی جائیں۔ ان سائبر کرائم میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغام، ای میلز، غیر قانوی طور ڈیٹا تک رسائی وغیرہ شامل ہیں۔ جب دُنیا کی معروف ترین کمپنیوں کے 580 سینئر ایگزیکٹوز اور ECOs سے ایک سروے میں بین الاقوامی کاروباری خطرات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان سرفہرست مسائل میں ایک مسئلہ سائبر کرائم کا تھا، 2014 جون میں جب جارج ٹاون یونیورسٹی کے سنیئر فاراسٹرٹیجک اینڈ اینٹرنیشنل سٹڈیز کی سامنے آنے والی تحقیق میں یہ تخمینہ لگایا گیا کہ سائبر کرائم سے دُنیا میں ہونے والا نقصان 375 سے 575 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ اور پھر یہ کاروبار پندرہ سے 20 فیصد انٹرنیٹ کے حصے کے برابر ہے۔ اسی حوالہ سے انٹرنیٹ سیکورٹی فرم میکانی نے جون 2014 میں سالانہ نقصانات کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ سائبر کرائم کے نتیجے میں عالمی معیشت کو چار سو ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا۔ پھر گزشتہ سال ماہ ستمبر میں سماجی رابطہ کی ویب سائٹ فیس بُک پر سائبر حملہ ہوا جس میں 5کروڑ صارفین کا ڈیٹا چوری ہونے کے علاوہ 3 کروڑ صارفین کے اکاونٹس ہیک کر لیے گئے تھے۔ اس حملہ میں 1.4 کروڑ صارفین کے نام، رابطہ نمبر اور نجی معلومات شامل تھی۔ اس کے بعد کمپیوٹرز پر وانا کرائی وائرس کا حملہ ہوا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں۔ اس وائرس نے 150 ممالک میں تقریباً 2 لاکھ سے زاہد کمپیوٹرز کونشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ دبئی میں بین الاقوامی آن لائن ٹیکسی سروس کریم کا ڈیٹا سائبر حملے کی زد میں آیا جس میں ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کا ڈیٹا چرایا گیا۔ اور اب پاکستانی بنکنگ سسٹم پر سائبر حملہ کیا گیا۔ پہلے لوگ گھروں، دکانوں میں پیسوں کی چوری کے ڈر سے رقم، زندگی کی جمع پونجی بنکوں میں بلا خوف و خطر رکھتے تھے اور اطمینان تھا کہ ان کے رقم محفوط ہے اور بوقت ضرورت کام آئے گی۔ لیکن پاکستان میں تاریخ میں بنکنگ سسٹم میں سائبر حملہ سے عمومی طور پر پورے وطن، خصوصاً دیہائی علاقوں میں لوگ ذہنی کرب کا شکار ہیں۔ جس کی بڑی وجہ دیہی علاقوں میں لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں اور انہیں کالیں بھی بے شمار آتی ہیں کبھی کمپنی کا نمائندہ تو کبھی بنک منیجر کے روپ میں، اس جھانسے میں کئی دھوکہ کھا چکے۔ اندازے کے مطابق پاکستان کے بنکوں سے پانچ ہزار سے زائد بنک اکاونٹس ہیک کر لیے گئے جن میں سے تقریباً 85 کروڑ رقم نکال لی گئی۔ اور پھر اے ٹی ایم کارڈ سے 60 سے 75 ڈالرز میں فروخت کے لیے لگائے گئے۔ بمطابق پاکستان کے ادارے کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم کے تجزیے وطنِ عزیز کے 22 بنکوں کے 19 ہزار 846 صارفین کے کارڈز کی معلومات فروخت کی غرض سے ڈارک ویب پر ڈالی گئیں۔ سائبر حملے میں 19 ہزار کارڈ کا ڈیٹا چرا لیا گیا۔ پاکستانی بنکوں کے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کا ڈیٹا چرایا گیا پاکستانی بنکوں کے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کی عالمی بلیک مارکیٹ میں فروخت کے معاملہ پر رپورٹ میں کہا گیا کہ 22 پاکستانی بینکوں کے مجموعی طور پر 19 ہزار 864 کارڈ کا ڈیٹا چوری ہوا، 100سے 160 ڈالر کی قیمت میں فروخت ہوئے۔ 26 اکتوبر کو پاکستانی صارفین کے ڈارک ویب پر 8 ہزار 864 کارڈ فروخت ہوئے جب کہ 31 اکتوبر کو مزید 11 ہزار کارڈ پاکستانی بنک صارفین کے ڈارک ویب پر فروخت ہوئے۔ اور پھرجن غیر ملکیوں نے پاکستانی اے ٹی ایم استعمال کئے ان کا ڈیٹا بھی چوری کیا گیا۔ ان میں کئی بزرگ لوگ ایسے بھی شامل ہیں جن کی پنشن کے پیسے جو کہ ان کی پوری زندگی کی محنت اور بڑھاپے کا سہارا اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ وطن عزیز میں پہلا سائبر حملہ ہوا تھا جس کے نتیجہ میں نہ صرف 80 کروڑ روپے چوری ہوئے بلکہ ہزاروں بنک صارفین کے کارڈ بھی غیر محفوط ہو گے۔ لیکن اس وقت کے حملہ کے بعد عوام میں اس طرح سے نہ تو معلومات تھی نہ ہی اتنا غیر محفوظ سمجھا جارہا تھا۔ اب جب کہ سائبر حملہ کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا چکا تو عوام میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ کیونکہ کئی پاکستان کے شہروں میں یا تو سائبر حملہ سے اکاونٹس سے پیسے غائب ہوتے ہیں اور پھر کئی سادہ عوام کو اے ٹی ایم کارڈ کے استعمال کا یا تو پتہ ہی نہیں یا پھر وہ ان حربوں سے واقفیت ہی نہیں رکھتے۔ اب اس سائبر کرائم کے حوالہ سے بنائے گے قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹرز میں ماہرین کے مطابق ’’ریڈ اونلی،، کی فائل بنا دی جائے تو کم از کم وہ کمپیوٹر اس حملہ سے بچ سکتا ہے۔ اور پھر ایسے افراد جنہیں ان معلومات تک رسائی نہیں ان کے لیے بذریعہ میڈیاآگاہی مہم کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ ایسے عناصر کو اپنا ریکارڈ فون کالز پر نہ فراہم کریں۔ اے ٹی ایم احتیاط سے استعمال کریں تاکہ ملک و قوم کا نقصان نہ ہو۔