1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. فکرِ اقبال ؒ اور نوجوان!‎

فکرِ اقبال ؒ اور نوجوان!‎

9 نومبر شاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ اقبال کا یومِ پیدائش ہے۔ اس دن کو یوم اردو بھی کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ شاعرِ مشرق، بلند پایہ مفکر، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے محرک، ملتِ اسلامیہ کے معمار، مسلمانوں کے مخلص و بے باک قائد اور عظیم مفکر و مدبر کے طور پر جانے جاتے ہیں جب بھی ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو علامہ اقبال وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے پہلی بار نہ صرف ایک اسلامی ریاست کا خواب دیکھا بلکہ اس کی تعبیر کے لیے ہر اس سوچ و فکر کو پروان چڑھایا جس سے اس کی تعبیر ہو۔ آپ ؒ نے مسلمانوں کی معاشرتی اساس کو اجاگر کرنے کی انفرادی و علاقائی سے جنم پانے والے خیالات کو مجتمع کرنے اور انہیں مضبوط بنانے کا فریضہ بحسن و خوبی سر انجام دیا۔

آج علامہ اقبال کے عنوان سے لکھی جانی والی تحریریں ان گنت ہیں لیکن آج کے دن کی مناسبت سے میں وہ پیغام دہرانا چاہتا ہوں جو پیغام علامہ اقبال ؒ نے نوجوانوں کو دیا جو شاید کہ ہم بھول گئے ہیں۔ اور ایسی خوفناک تہذیب میں آن پہنچے ہیں جہاں سے روشنی کی امید مشکل ہوتی جارہی، آج نوجوان اخلاقی اقدار ہی بھول گے۔ اقبال کے اندر قوم کا درد موجزن تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جہاں قوم کو متحد کرنے کی کاوش کی۔ کاش آج ہم اپنے اسلاف کا یہ پیغام یاد رکھتے تو اس طرح ایک خدا، رسول، قرآن، نصب العین کے ہوتے ہم مذہبی، صوبائی، برادری ازم، فرقہ وارت، پنجابی، ہندی، سرحدی، کشمیری ہونے کے بجائے ایک قوم ہوتے۔ انہوں نے نوجوانوں کو شاہین بننے کا درس دیا اس وقت کے نوجوانوں کے حوالہ سے اقبال کتنے فکر مند تھے اس کا اندازہ ان کے ایک خط اور خطاب سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

علامہ اقبال سید ندوی کے ایک خط میں اپنے عہد کی مسلم نسل کے بارے میں اپنی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ممالک اسلامیہ کے موجودہ حالات دیکھ کر بے انتہا اضطراب پیدا ہو رہا ہے، یہ اضطراب اور بے چینی محض اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل گھبرا کر کوئی اور راہ اختیار نہ کرلے۔ حال ہی میں ایک تعلیم یافتہ عرب سے ملنے کا اتفاق ہو۔ فرانسیسی خوب بولتا ہے مگر اسلام سے قطعاً بے خبر تھا۔ اس طرح کے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں تو سخت تکلیف ہوتی ہے،،۔ اقبال کو اسلام سے گہرا لگاؤ تھا۔ کہا اپنی ملت پر قیاس کر۔ یورپ سے واپسی پر پہلا خطاب علی گڑھ کے طلباء سے 1911ء میں ہو ا جس کے عنوان سے ہی واضح ہوتا ہے کہ وہ امت کے اتحاد کے مشتا ق تھے۔ اس کا عنوان تھا ’’مسلم کمیونٹی،، خطاب میں جدید تعلیم کے حوالہ سے اس دور کے مسلم نوجوانوں کی سیرت و کردار کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: موجودہ نسل کا نوجوان مسلمان قومی سیرت کے اسالیب کے لحاظ سے ایک بالکل نئے اُسلوب کے ماحصل ہے۔ جس کی عقلی زندگی کی تصویر کا پردہ اسلامی تہذیب کا پردہ نہیں ہے۔ حالانکہ اسلامی تہذیب کے بغیر میری رائے میں وہ صرف نیم مسلمان بلکہ اس سے بھی کچھ کم ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کی خالص دنیوی تعلیم نے اس کے مذہبی عقائد کو متزلزل نہ کیا ہو۔ اس کا دماغ مغربی خیالات کی جولان گاہ بنا ہوا ہے۔ اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اپنی روایات کے پیرانہ سے عاری ہو کر اور مغربی لٹریچر کے نشہ میں ہر وقت سرشار رہ کر اس نے اپنی قومی زندگی کے ستون کو اسلامی مرکزِ ثقل سے بہت پرے ہٹا دیا ہے۔ بلاخوف تردید میرا دعویٰ ہے کہ دُنیا کی کسی قوم نے ایسی اعلیٰ اور قابلِ تقلید مثالیں اپنے افراد میں پیدا نہیں کیں جیسی ہماری قوم نے کیں۔ لیکن بایں ہمہ ہمارے نوجوانوں کی جو اپنی قوم کی سوانح عمری سے بالکل نا بلد ہیں، مغربی تاریخ کے مشاہیر سے استحساناً او استہزاً رجوع کرنا پڑتا ہے۔ عقلی و ادراکی لحاظ سے وہ مغربی دُنیا کا غلام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی روح اس صحیح القوام خودداری کے عنصر سے خالی ہے جو قوم اپنی تاریخ اور قومی لٹریچر کے مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے تعلیمی جدوجہد میں اس حقیقت پر جس کا اعتراف تجربہ آج ہم کرارہا ہے، نظر نہیں ڈالی اغیار کے تمدن کو بلا مشارکت احدے اپنا ہر وقت کا رفقی بنائے رکھنا گویا اپنے تئیں اس تمدن کا حلقہ بگوش بنالینا ہے۔ یہ وہ حلقہ بگوشی ہے جس کے نتائج کسی دوسرے مذہب کے دائرہ میں داخل ہونے سے بڑھ کر خطرناک ہیں۔ مجھے رہ رہ کر یہ رنج وہ تجربہ ہوا ہے کہ مسلمان طالب علم جو اپنی قوم کے عمرانی، اخلاقی اور سیاسی تصورات سے نابلد ہے۔ روحانی طور پر بمنزلہ ایک بے جان لاش کے ہے اور اگر موجودہ صورتحال اور بیس سال تک قائم رہی تو وہ اسلامی روح جو قدیم اسلامی تہذیب کے چند علم برداروں کے فرسودہ قالب میں ابھی تک زندہ ہے، ہماری جماعت کے جسم سے بالکل ہی نکل جائے گی۔ وہ لوگ جنہوں نے تعلیم کا اصل الاصول قائم کیا تھا ہر مسلمان بچے کی تعلیم کا آغاز کلامِ الٰہی کی تعلیم سے ہونا چاہیے۔ وہ ہمارے مقابلے میں ہماری قوم کے ماہیت، نوعیت سے زیادہ باخبر تھے،،

یہ تھااس وقت اقبال کا نوجوانوں کے نام پیغام۔ اگر آج علامہ اقبال ؒ اس قوم کے نوجوان کی حالتِ زار دیکھ لیتے تو کیا فرماتے، یہ وہی قوم ہے جس کے نوجوان اپنی ہی تہذیب سے نابلد ہو چکے۔ اقبال ؒ اور ایسے ہی ہماری قوم و ملت کا فخر ہیروز جنہوں نے نہ صرف امتِ مسلمہ بلکہ غیروں میں بھی علم و عمل کا لوہا منوایا۔ آج ہمیں ان کے سنہرے اصول تو کجاء، ان کے ادوار، خدمات تک یاد نہیں۔ ہمیں اپنے قومی ہیروز کے پورے نام تک یاد نہ رہے۔ جب ان کی تعلیمات کا علم ہی نہیں تو عمل کیسے ممکن ہو سکتا۔ آج ہم جنہیں اپنا ہیرو تسلیم کر کے ان کی اندھی تقلید ہماری سرمایہِ حیات بن چکی۔ اس سے نہ صرف ہم اپنی تہذیب سے دور چلے گئے بلکہ غیروں کی تہذیب میں ڈھلے گے۔ اقبال ڈے پر اگر آج ہم یہ تجدید کر لیں کہ ہم سرحدی گروہ بندی، فرقہ واریت، تعصب، نفاق، تنگ دیواروں سے بالا تر ہو کر وحدت ملی بن جائیں۔ یقیناًیہ زوال و پستی اور غلامی سے نجات کا واحد حل بھی ہے اور یومِ اقبال کا پیغام بھی۔ اور پھر اپنی تہذب کو نہ بھولیں باقی اقدار تو ایک طرف ہماری قومی زبان اردو ہے اقبال کی اردو کے حوالہ سے خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں آج اردو ہماری سرکاری زبان ہونے کے باوجود صفحہِ ہستی سے مٹنے کے قریب ہے ہمارے جملہ ادارے، دفاتر، فیصلے، تقاریریں، ہر چیز انگلش میں ہونے لگی۔ کیا یہی ہماری ثقاقت، تہذیب کی پہچان ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے اسلاف کی تقلید کی ہمت و توفیق دیں۔ اور پاکستان کو تاقیامت ان ہیروز کے محنت کے طفیل قائم و دائم رکھیں۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔