پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل تو کرلیا گیا لیکن اسلامی اصولوں کی پیروی نہیں کی جاتی۔ اگرچہ ہم اسلام کے اصولوں کو مدنظر رکھتے اور انہی کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر درپردہ مسلمان قوم آج مغربی یلغار کے شکنجے میں کچھ اس طرح سے جکڑی گئی ہے کہ اسلام کے ان سنہری اصولوں کو پس پشت ڈالنے پر مجبور ہے جو اسے مسلمان ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اسلام پر مبنی رسم و رواج کی موجودگی کے باوجود اس اسلامی معاشرے میں بے شمار غیر اسلامی رسومات رواج پا چکی ہیں جو کسی بھی لحاظ سے اسلامی معاشرہ کے شایان شان نہیں۔ انہی رسومات میں سے ایک رسم جہیز دینے کی ہے۔ جہیز دینا اور لینا ہمارے معاشرے کی ایک ایسی روایت بن چکی ہے۔ جس کی پاسداری بھی ضروری ہے اور اس سے چھٹکارہ بھی ممکن نہیں اگر جہیز کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی کڑیاں برصغیر پاک و ہند سے جا ملتی ہیں جہاں ہندوستان کے قانون کے مطابق لڑکی کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا س کی تلافی کے لئے ہندو اپنی بیٹیوں کو شادی کے وقت ضروری سامان یا جہیز دیتے تھے۔ ہندو عورت وراثت کے حق سے محروم ہوتی ہے جبکہ مسلمان عورت کو یہ حق شرعی اور قانونی طور پر حاصل ہے۔ لیکن جہیز کی رسم آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے۔ اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لئے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونیوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔ آج اس رسم نے جو قبیح صورت اختیار کر لی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جہیز ایک فرسودہ رسم ہے جس کی بنیاد محض لالچ اور خود غرضی ہے اور یہ نفسا نفسی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ آج کل کے دور میں مہنگائی کی وجہ سے جہاں دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں شادی اور جہیز کے اخراجات والدین سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے کسی نہ کسی طرح برداشت کر لیتے ہیں لیکن پھر قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں دوسری جانب خواتین کو جہیز نہ لانے یا کم لانے کی بنیاد پر تیزاب پھینک کر یا آگ لگا کر جلانے کے واقعات بھی اکثر سامنے آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہیز ایک ایسی لعنت ہے جس نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے ہیں۔ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس نے نہ جانے کتنی اخلاقی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی لڑکیاں موجود ہیں جن کی عمریں اس لئے ڈھل رہی ہیں کہ ان کے والدین ان کی شادی کے لئے جہیز دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے۔ غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لیتی ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔ یہ درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیاء کو قیمتی شمار کیا جاتا تھا وہ آج معمولی ضروریات زندگی بن چکی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ آج کل انسان ایک سائنسی دور سے گزر رہا ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے میں غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں وہ محض رینگتے کیڑے مکوڑے ہیں جنہیں ہر کوئی مسلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ ہزاروں بہن بیٹیاں اس لئے گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں کیونکہ انکے والدین کے پاس جہیز دینے کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔ جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے لیکن عام طور پر زیورات، کپڑوں، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی۔ جہیز دینا بری بات نہیں، والدین اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق جو اپنی بیٹی کو دے سکتے ہیں دیتے ہیں اور وہی لڑکے والوں کو قبول بھی کرنا چاہئے۔ جہیز کو لعنت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اکثر لڑکے والے باقاعدہ جہیز کا مطالبہ کرتے تھے جو غیر اخلاقی، انتہائی نامناسب اور بہت بری بات ہے۔ بہت سے خاندان لڑکی والوں سے جہیز میں گاڑی، موٹرسائیکل یا قیمتی اشیاء کی ڈیمانڈ کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ لڑکی والوں کی معاشی حیثیت کمزور ہے اور پھر رشتوں کی خاطر لڑکی کے بھائی یا والد لڑکے والوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ جہیز کے مطالبہ کو پورا کرنے کیلئے آج کتنے ہی گھر اجڑ چکے ہیں۔ لڑکی کی پیدائش جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خوش بختی کی علامت ہے۔ اس کو اس مطالبے نے بدبختی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اگر جہیز کی لعنت کا خاتمہ ہو جائے اور شادیاں سستی ہوجائیں تو کئی نوجوان بچیوں کے چہرے ان گنت خدشات سے پاک ہوجائیں گے اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہو کر اپنے فرائض کو باآسانی ادا کرسکیں گے۔ جس کو نبی کریم ﷺنے اپنی تہذیب میں شامل فرمایاہے، وہ ٹوٹتاہوا نظرآتاہے۔ طلاق جو اللہ کے نزدیک حلال چیزوں سے جہیز تحفہ کے نام سے ہمارے سماج کاایک لازمی حصہ بن گیاہے، جو دھیرے دھیرے ایک ناسوربن چکاہے، اورطاعون کی طرح پورے معاشرہ کولپیٹ میں لے لیاہے، یہی نہیں، بلکہ اس کی وجہ سے اَن گنت کنواری لڑکیاں بِن بیاہی بیٹھ کراپنی زندگی کے ایام گن رہی ہیں، کتنی ایسی دوشیزائیں ہیں جن کے ہاتھ رنگین ہونے سے محروم رہ گئیں، جی ہاں!یہ جہیزجیسی رسم کی بدولت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہیز نہ ملنے یاکم ملنے کی وجہ سے ہزاروں دلہنیں موت کے آغوش میں جاچکی ہیں اورکتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جوسسرال کے ظلم وستم کے مقابلہ میں خودکشی کرنے کوترجیح دینے پر مجبورہیں۔ افسوس کامقام یہ ہے کہ یہ تعدادگھٹنے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جہیز کی اس قبیح رسم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے پیٹ میں موجود معصوم کلی کوضائع کرنااوردنیامیں آنے سے قبل ہی اس کو نیند کے آغوش میں سلادیئے جانے کاسنگین جرم کرناشروع کردیاہے۔ نتیجۃ لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی شرح پیدائش کم ہوگئی ہے۔ حالانکہ خدائی اورملکی قانون دونوں کے اعتبار سے جہیز کامطالبہ کرنا خواہ اشارہ سے ہویاکنائی الفاظ سے ہو اِللیگل ناجائز اورحرام ہے۔ ہمیں اپنی شریعت کو مقدم رکھتے ہوئے حسب استطاعت مطالبات کرنے چاہیے اور نکاح، جو ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ اسے غریبوں کے لیے آسان کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ انتشار، عدم مساوات سے نجات حاصل کر سکے۔ وہ والدین جو اپنی جواں بچیوں کے لیے صرف جہیز کی فرمائش کی خاطر پریشان ہیں انہیں نجات مل سکے۔