میلادِ رحمت العالمین ﷺمسرتوں، محبتوں، سعادتوں کی متاعِ گرداں بہالے کر اہلِ ایمان کے مضطرب جذبوں کو سیراب کرتا ہے۔ اس دن جتنی بھی خوشی منائی جائے وہ کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اس امت کو دیئے۔ یہ احسانِ عظیم ہے۔ تمام خوشیاں اسی خوشی کی مرہونِ منت ہیں۔ مشتاق روحیں، بے چین جذبوں کے ساتھ اس مطلع صبحِ ازل کی منتظر ہیں۔ ظہورِ قدسی کے ان مبارک ساعتوں نے تہذیبِ انسانی کو وقار سے نوازا۔ یہ انسانیت کی معراج ہے۔ اہل اسلام عشق و محبت کے اشکوں سے وضوکر کے حریمِ دیدہ و دل سجاتے ہیں۔ یہ دن، یہ ماہ ہر لمحہ ہر ساعت کشتِ ایمان کے لیے بہار جاوداں کا پیام ہے۔ کائنات ہست و بود کو ان مقدس لمحات پر بجاء طور پر فخر ہے۔ جن میں وادیِ مکہ مکرمہ میں کائنات کا چاند چمکا کہ پورے جہاں کو تا ابد روشن کرگیا، جو یقیناکارخانہِ قدرت کا سرمایہ افتخار ہے۔ جب فضائے عالم مسرتوں کے دلآویز نغموں سے گونج اٹھی جس پر آج تک مطلعِ عالم میں بہاروں کو بانکپن لٹارہی ہے۔ وہ تاریخِ انسانی کا روشن باب جس نے تاریخ کا رخ ہی موڑ دیا۔ وہ سیاہ تاریخ جس کل ہر صفحہ درماندگی، انسانی دشمنی، جاہلیت کی گواہی دے رہی تھی۔ وہ تاریخ جس کا دامن ظلم و بربریت سے تار تار تھا۔ وہ تاریخ جس میں قیصر و کسریٰ کا استبداد لوگوں کا مقدر سمجھا جاتا تھا۔ پھر وہ گھڑی آن پہنچی کہ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز،، جانوروں سے بدتر زیست بسر کرنے والے غلاموں کو وہ جرات و حوصلہ دیا کہ وہ اپنے آقاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر جائز بات کرنے اور ان کے دستِ جفاکیش کو توڑ کر اپنا حق لینے کے قابل ہوئے۔ علم کو عرفان کو منزل تک پہنچایا۔ عمل کو صالحیت و مقصدیت کا حصار عطا کیا۔ ویرانیِ زیست ان راہوں پر سرورِ بندگی کے شجر ہائے ثمردار اُگائے، اور پھر نفرتوں، عداوتوں، نفاق کے صحراِ لامتناعی میں اخوت، محبت، پیار، خلوص کے حیات بخش گلستاں آباد کئے۔ یومِ میلاد رحمت العالمین ﷺدرحقیقت پوری انسانیت کا یومِ نجات ہے۔ جن کے آنے سے یثرب مدینہ بنا۔ تمام جاہلیت، کفر و شرک سے خلاصی، جنگل کے قانون کی حکمرانی سے نجات، وہ جنہیں زمانہ جاہلیت نے مایوسی، غلامی، ظلم کے گرداب میں دھکیل دیا تھا۔ ان کے چھٹکارے کی نوید کے ساتھ ہی معاشرے میں بے کسوں، مفلسوں، یتامی ٰ، بیوہ، مفلسوں کو بھی وہی حقوق ملے جو معاشرے میں صاحب ثروت کا ہی مقدر سمجھے جاتے تھے۔ میلاد مصطفی ﷺاس عظمت و شر فِ انسانی کی پاسباں ہے۔ جن کی شانِ رحمت کے طفیل انسانیت کو اپنے رب کی معرفت ملی۔ جس نے بلال حبشیؓ جیسے غلاموں کو عرب کے سرداروں پر سبقت دی۔ شانِ رحمت ﷺظلمتِ دہر میں روشنی کا وہ منبع و مینار ہے جس سے تاحشر بھٹکنے والے قافلوں کو منزل کا سراغ ہی نہیں بلکہ مکمل راہنمائی بھی موجود ہے۔ وہ جن کی رحمت تمام نسلی، لسانی اور طبقاتی بتوں کو پاش پاش کر کے سب کو برابری کے حقوق عطا کرتی ہے۔ یومِ میلاد ﷺ اس انقلاب کی صبح نو ہے جس نے تمام انسانیت کے دامن سے درندگی، جاہلیت، نفاق، ذات پات، غرور، جیسے بدنما دھبوں کو دھویا اور اسے رحمت و رافت کے سدا بہار پھولوں سے مزین کیا۔ اس انقلاب نے عرب و صحرا نوردوں کو خضرِ راہ بنا دیا۔ جس نے نوعِ انسانی کو حقیقی آبرو بخشی۔ بے مقصدیت کی شاہراہ پر سسکتی، بلکتی اور بھٹکتی انسانیت کو عرفان و آگہی کی دولت سے نواز کر خائق تک رسائی کی حقیقی منزل سے ہمکنار کیا۔ اس پاکیزہ اجالے کا قلم کیسے ادراک کرے جس نے شمس و قمر کی روشنی اور ستاروں کو ضوفشانی سے مطہر کیا۔ بلا شک و شبہ یہی وہ لمحات ہیں جن کی منتظر گردشِ شام و سحر نے ماہ و سال کی لاکھوں کروٹیں بدلی۔ بھٹکتی انسانیت، انسان کے شعور کی وہ تمام ارتقائی منازل سے گزار کر بلوغت کے اس مقام پر لایا جب وہ رشد و ہدایات اور راہنمائی کے لیے کسی جامع صفاتِ ہستی کے لیے بے تاب ہو گیا۔ اور پھر انسانی اضطراب و بے یقینی کی گرفت میں وہ نسخہِ کیمیا لائے کہ سسکتی انسانیت معراج تک پہنچ گی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ رحمت ﷺ کی محبت کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں تو غلط نہ ہو گا۔ جس دل میں محمد ﷺ کی محبت نہیں ہوتی۔ اس دل پہ اللہ کی رحمت نہیں ہوتی۔ یہ وہ ہستی ہیں جو وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں۔ آج کا دن ہم سے ایک مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری ایک پہچان ہے۔ اتنی ماں بچوں کے ساتھ محبت نہیں کر سکتی جتنی ہمارے نبی ﷺ کو اپنی امت سے ہے۔ وہ دن جب آدم ؑ سے لے کر عیسیٰ ؑ تک میدانِ محشر ایک ہی صدا ہو گی نفسی نفسی تو ایک آواز منفرد، امتی امتی۔ اتنی محبت، ہم ان ہی کو بھول گئے۔ وہی امت جو دُنیا کو محبت، اخلاص، مروت، بھلائی کا درس دینے آئی تھی خود بے امنی، باہمی نفرتوں کا شکار ہو گئی۔ ستاروں کو نشانِ راہ دکھانے والے خود بے جہت جھنڈ بن چکے، فطرت کی طاقتوں کو مسخر کرنے کا عہد لے کر آنے والی قوم کا شیرازہ بکھرے ہوئے ریوڑ کی مانند ہو گیا۔ رحمت العالمین ﷺ کی قیادت باسعادت نے تمیز بندہ وآقا مٹا کر فسادِ آدمیت کی ہر مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ وہی امت فسادات کی گرداب میں گر گئی۔ وہ جن کی آمد نے حیاء کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہم ان کو بھول کر اندھی تقلید میں اس قدر ڈوب گے کہ اپنی ہی تہذیب، پہچان مٹا دی۔ ایثار، قربانی، اخوت، باہمی پیار و محبت اس امت کا طرہِ امتیاز ہے۔ لیکن ہم آج عدمِ برداشت، خود غرضی، نفرت جیسی موذی بیماریوں میں گر چکے اور پھر ہمیں فخر بھی ہے۔ رحمت العالمین ﷺ نے خود طائف میں پتھر کھائے، کوڑا کرکٹ پھکینے والوں سے بھی در گز ر فرمایا یہ امت کو پیغام دیا کہ کامیابی درگز ر میں ہے ایک دوسرے کے دست و گریبان ہونے میں تباہی کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ آج کے دن اگر ہم یہ عہد ہی کر لیں کہ ہم ایک رول ماڈل (مثالی) امت ہیں ہم اپنے نبی ﷺ کو رہبر مانیں گے۔ جدھر سورج بھی اندھا ہو جاتا ہے ان کو اپنا راہبر و آقا تسلیم نہیں کرتے ہوئے یہ معاشرے میں عدمِ مساوات، قتل و غارت، حرح و ہوس، کبر و نخوت، خونخواری، ظلم و ستم و غار و تگری کا بت نہیں بنیں گے۔ بلکہ عظیم و جلیل نبی ﷺ سے اجالا کریں گے۔ قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے۔ دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے۔ تاجدارِ کائنات ﷺسے محبت و وفاتم کی بدولت ہم ایک امت بن جائیں متحد ہو جائیں۔ خلفشار و سازشوں، نفاق، انا، نفرت سے باہر نکل کر ذات، قوم، قبیلہ، سرحدی حدود سے بالا تر ہو کت ایک نبی ﷺ کے امتی ہو جائیں۔ اور ان ﷺ کی آمد کے جشن میں اپنی ممکنہ توانیاں صرف کردیں۔ سلام ان پر جنہوں نے بادشاہی میں فقیری کی۔