بھارت ہمیشہ سے بین الاقوامی قوانین کو اپنے پاؤں تلے روندتا آرہا ہے۔ ظلم و تشدد کا بازار گرم ہے۔ مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہے، متنازع علاقے میں جی 20 کانفرنس کا انعقاد عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ بھارت عالمی برادری کو دھوکا دینے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی گروپ کا اجلاس بلا کر کشمیر پر اپنا قبضہ ثابت کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت طاقت کے زور پر کشمیر پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ اس کانفرنس میں چین، ترکی، مصر، سعودی عرب اور انڈونیشیا نے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر شمولیت سے انکار کر دیا۔ بھارت کے اس خودساختہ اقدام کا شدید ردعمل آیا، آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی سمیت کئی مقامات پر ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔
جی 20 گروپ دنیا کی 20 اہم معیشتوں والی حکومتوں اور مرکزی بینک کے گورنروں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔ اسکے ارکین میں 20 انفرادی ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، ہسپانیہ، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، مملکت متحدہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپی یونین کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ جی 20 ممالک کی اکثریت ترقیاتی بینکوں کے بورڈ میں شامل ہے۔ بھارت نے 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے کشمیر کی ہیئت کو بدل ڈالا جو کشمیریوں کا ازلی حق رہا ہے۔
گو پاکستان جی 20 کا رکن ملک نہیں لیکن پاکستان کی جانب سے بھی انڈیا کے زیرِ انتظام مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کے ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کرنے کی پرزور مخالفت کی جا چکی ہے۔ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد کے پیچھے یہ مکاری کارفرماء ہے کہ عالمی قوتیں یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہونے کے باوجود پرسکون ہے اور بھارت کا 5 اگست 2019 کا اقدام درست تھا۔ کشمیر کی وادی سیکڑوں سالہ پرانی تاریخ اسلامی روایات کی امین ہے۔ یہ جنت نظیر وادی اپنا منفرد ثقافتی ورثہ رکھتی ہے۔
دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ 1965ء کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں 1971 کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی تھی۔ سولہ مارچ 1846 انگریز نے 75 لاکھ کے عوض کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کیا، امرتسر معاہدہ۔ پھر اس کا بیٹا زنبیر سنگھ جانشین بنا۔ پھر پرتاب سنگھ جانشین بنا افیون کا نشہ کرتا تھا۔ کرکٹ کھیلنے کا شوقین تھا۔
پھر امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ سازش سے جانشین بنا، حکیم نور دین جو مرزا قادیانی کا دست راست اور سرکاری حکیم تھا اس سازش میں پیش پیش تھا۔ یہ قادیانی سازش کی پہلی فتح تھی۔ قادیانی کشمیر میں الگ ریاست کے خواہاں تھے۔ ہری سنگھ 1925 میں گدی نشین بنا جسے قادیانی حمایت حاصل تھی مسلمانوں پر ظلم و استبداد شروع ہوا 1929 میں شیخ عبد اللہ نے ریڈنگ روم تنظیم اور اے آر ساغر نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن بنائی۔
1931 میں پہلی مسجد ریاسی میں شہید ہوئی کوٹلی میں نماز جمعہ پر پہلی بار پابندی لگائی گئی۔ ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن کی بے حرمتی کی، عبدالقدیر نامی مسلمان نے بے مثال احتجاجی جلسے کیے جو گرفتار ہوا پھر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ 13 جولائی کو شہدائے کشمیر ڈے اسی قتل عام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس طرح تحریک آزادی کشمیر 1931 میں مکمل شروع ہوئی۔
25 جولائی 1931 میں فیئر ویو منزل شملہ میں ایک میٹنگ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کی صدارت قادیانی مرزا بشیرالدین محمود نے کر ڈالی یہ مرزا قادیانی کا بیٹا تھا۔ یہ پھر قادیانی فتح تھی، اس نے سازش کر دی کہ تمام مسلمان قادیانی کے نبی ہونے کو مان چکے ہیں اسی لیے مرزا بشیر کو صدر منتخب کیا۔ سب مسلمان فوراً اس کمیٹی سے دستبردار ہوئے عطاءاللہ شاہ بخاری فوراً کشمیر بھیجے گئے۔ بڑی مشکل سے مسلمانوں کو اس سازش سے نکالا۔ علامہ اقبالؒ مجلس احرار کے سرپرست بنے اور بشیر قادیانی کی سازش ناکام کی۔
14 اگست 1931 پہلی بار کشمیر ڈے منایا گیا۔ اکتوبر 1931 میں علامہ اقبالؒ کی سرپرستی میں مسلمان وفد مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے وزیراعظم ہری کرشن کول سے مذاکرات کے لیے ملے۔ مذاکرات ناکام ہوئے، سیالکوٹ سے کشمیر چلو کشمیر چلو تحریک چلی یوں تحریک آزادی باقاعدہ 1931 میں شروع ہوئی، مسلمانوں کا دوسرا مجاہد دستہ جہلم سے میرپور کی طرف روانہ ہوا۔ تیسرا دستہ راولپنڈی کے تیس نوجوانوں پر مشتمل تھا جو قرآن پر قسم اٹھا کر نکلے کہ کوہالہ پل بند کرکے رہیں گے، پھر اس جنگ کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نومبر 1931 میں سر بی جے گلینسی کی صدارت میں کمیشن بنا۔
1933 میں سری نگر پتھر مسجد میں جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ شیخ عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس اس کے جنرل سیکرٹری بنے اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101، 387 مربع کلومیٹر پر جبکہ پاکستان 85، 846 اور چین 37، 555 مربع کلومیٹر پر قابض ہیں۔ آزاد کشمیر کا 13، 350 مربع کلومیٹر (5134 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جبکہ شمالی علاقہ جات کا رقبہ 72، 496 مربع کلومیٹر (27، 991 مربع میل) ہے جو گلگت اور بلتستان پر مشتمل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل بلتستان صوبہ لداخ کا حصہ تھا اور اس کا دارالحکومت اسکردو لداخ کا سرمائی دارالحکومت تھا۔
بھارت کی ماضی کی حکومتوں چاہے کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو کبھی نہیں چھیڑا یہ الگ بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فوج، پولیس اور دیگر نوعیت کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کی گئی مگر 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرکردگی میں اس تار کو بھی چھیڑ دیا اور 5 اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا۔
جہاں تعلیمی ادارے مسلسل بند ہیں، غذائی اجناس کی صورت حال سے دنیا ناواقف ہے ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں بلکہ وہاں پر بھارتی فوج کا بسیرا ہے، کسی کو نہیں معلوم لیکن پاکستان سمیت پوری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت گلیوں میں گشت کر رہے ہیں اور علاقے میں کسی بھی قسم کے احتجاج یا اجتماع کی بھنک پڑنے پر فوری کارروائی کا آغاز کر دیتے ہیں۔
نہتے کشمیریوں کو خاک و خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ حوا زادیوں کی عصمتوں کے آبگینے پارا پارا کیے جا رہے ہیں۔ حریت پسندوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزارنے کے ساتھ ساتھ ان پر قہر و ہولناکی کے آتش فشاں برسائے جا رہے ہیں۔ وہاں قائم کیے گئے عقوبت خانے ہٹلر اور چنگیز خان کے مظالم کو شرما رہے ہیں۔ زندہ انسانوں کو شکنجوں میں کس کر ان کا بند بند ہتھوڑوں سے توڑا جاتا ہے۔ ناخن کھینچے جاتے ہیں سروں اور داڑھیوں کے بال نوچے جاتے ہیں۔ آج کشمیر وقت کی نوک قلم سے ٹپکنے والا لہو رنگ سوالیہ نشان ہے۔ بلاشبہ یہ کرہ ارض پر عصر حاضر کا سب سے بڑا اندوہناک المیہ ہے۔
جہاں ایک طرف بھارتی سامراج کے ظلم و تشدد کا آتش فشاں دہکا ہوا ہے وہیں اہل کشمیر کا جذبہ بھی لائق دید ہے۔ وہ جرات و ہمت کی نئی داستانیں رقم کرنے کے لیے میدان عمل میں نکل آئے ہیں۔ آج کشمیر میں ہر گھر مورچہ ہے تو ہر گلی میدان جنگ۔ کشمیر کے ہر گھر میں شہیدوں کے لہو سے چراغاں کیا جا رہا ہے۔ اہل کشمیر کسی بھی قسم کی بیرونی امداد کے بغیر اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں۔ ان کے ارادے عظیم ہیں اور حوصلے فراخ۔ وہ اپنے ہی لہو میں ڈوب کر آزادی کشمیر کا پرچم لہرا رہے ہیں۔ ایک پرندہ بھی قفس سے آزادی چاہتا ہے تو ایک کروڑ سے زائد کشمیریوں کے لیے آزادی کیوں نہیں؟