دُنیا بھر میں 4 کروڑ 30 لاکھ کے قریب افراد ہر سال خسرے کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے 10 لاکھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ بحیرہ عرب کے بائیس ممالک میں سے سب سے زیادہ خسرہ کے مریض پاکستان میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کی رپورٹ کے مطابق مشرقی بحیرہ عرب کے 22ممالک میں سب سے زیادہ خسرے کے کیسز پاکستان میں پیش آئے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے صحت کے مطابق خسرے کے پاکستان میں تقریباً 10540 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 6494 مریضوں میں میں بیماری کی تصدیق ہوئی۔ اس فہرست کے مطابق دوسرا نمبر افغانستان کا ہے جہاں 1511 مریضوں میں خسرہ کی وباء کی شناخت ہوئی۔ جب کہ شام میں 513مریضوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2017 میں ان 22 ممالک سے 6494 خسرے کے کیسز سامنے آئے جن میں سے 65 پاکستان کے تھے۔ اقوام متحدہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق 2016ء سے پاکستان میں خسرہ کی رپورٹ شدہ کیسز میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رواں برس اب تک 97ہزار 464خسرے کے کیسز سامنے آچکے۔ پنجاب 11 ہزار 139 بچے، سندھ 7 ہزار 383، خبیر پختونخواہ 9 ہزار 875 اور بلوچستان میں 1ہزار 367 بچے خسرے کی بیماری کا شکار ہوئے۔ جن میں سے جنوری سے اگست تک 216بچے خسرہ کی وباء سے جان کی بازی ہار گئے۔ کے پی کے میں رواں سال 23بچے خسرہ کی بیماری سے موت کی وادی میں چلے گئے۔ جب کہ 10 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں 25افراد کی موت بوجہ خسرہ ہوئی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ وطنِ عزیز میں خسرے کی وباء میں 100فیصد اضافہ ہو چکا۔ 2009 میں خسرے کے رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 863تھی۔ 2011میں خسرہ کے 4 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔ 2012 میں خسرہ کی وباء سے مجموعی طور پر 13 ہزار 973 بچے متاثر ہوئے جن میں سندھ میں 7ہزار 274کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ جنوری 2012 سے فروری 2013 تک خسرے کے 19048کیسز رجسٹرڈ، 463 ہلاکتیں ہوئی۔ سب سے زیادہ سندھ متاثر ہوا جہاں خسرے کے کُل 6324کیس رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ 2013ء میں اس بیماری کے نتیجہ میں ایک لاکھ 45 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ جب کہ 2012ء میں یہ تعداد 1 لاکھ 22 ہزار تھی۔ 2013کی رپورٹ کے مطابق خسرے سے ہونے والی ہلاکتوں میں چین، کانگو، نائیجریامیں اس مرض کا پھیلاؤ زیادہ دیکھا گیاساتھ ہی یورپی ممالک ترکی، یو کرائن، جارجیامیں بھی اس متعدی بیماری نے درجنوں انسانوں کو لقمہِ اجل بنایا، اس عالمی ادارہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ خسرے کی وجہ سے 70سے زیادہ ہلاکتیں 6ممالک میں ہوئی جن میں نائجیریا، بھارت، ایتھوپیا، انڈونیشاء، ڈیموکرینک رپبلک کانگو اور پاکستان شامل ہیں۔ پاکستان میں 2013کے دوران 36ایام میں 3ہزار بچوں میں خسرہ کی بیماری کی تصدیق ہوئی۔ اس دوران خسرہ کے باعث 131 بچے انتقال کر گئے۔ جن کی تعداد سندھ 79، بلوچستان 36، پنجاب اور خبیر پختوانخواہ میں 6، 6ہلاکتیں ہوئی۔ 2016میں پوری دُنیا میں خسرے کی وجہ سے 87ہزار بچوں کی اموات ہوئی۔ 2016 میں پاکستان میں خسرے کے 2845 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2017 میں ان کی تعداد 6494 سے متجاوز ہو ئی۔ 2017 کی یکم جنوری سے 31دسمبرتک10540تک لیبارٹریز میں بھیجے جانے والے ٹیسٹوں میں سے 6494 نمونوں میں خسرہ کی تصدیق ہوئی۔ پاکستان میں خسرے کی بیماری اب تشویشناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں کے مختلف اضلاع کے بچوں میں بھی خسرہ کی بیماری پائی گئی۔ ہٹیاں بالا، جہلم ویلی کے چودہ کیسز رپورٹ ہوئے ان میں سے 10کیسز خسرہ کے تصدیق ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی پاکستان میں خسرہ کی بیماری کی وجہ سے ہونے والی اموات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عالمی ادارہ کے مطابق جنوری کے دوران پاکستان میں 154بچے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ جن میں سے پنجاب 96، سندھ 93، بلوچستان 39، خبیر پختونخواہ میں 12، اسلام آباد اور فاٹا میں 1، 1بچے کا انتقال ہوا۔ یہ وباء خطرناک صورتحال اختیار کر رہی پورے یورپ میں خسرے کی وباء کا خطرہ موجود ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے تنبیہ بھی کیا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران خسرے کے خاتمے کے لیے تواتر سے پیش رفت ہوئی ہے لیکن اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس متعدی بیماری کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے حوالہ سے اس سال جنوری میں یورپ میں خسرے کے جو 559کیسز رجسٹرڈ کیے گئے تھے ان میں سے 474 فرانس، پولینڈ، یو کرائن، جرمنی، اٹلی، رومانیہ، سوئنزرلینڈ میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس سال فروری کے مہینے کے ابتدائی اعداد و شمار بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ اس عفونتی مرض کے نئے کیسز میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ جن میں یورپی ممالک میں اس بیماری کے نئے کیسز دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس مرض کے وائرس کے خلاف ویکسین کی قومی شرحیں 95 فیصد سے کم تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ 450 بچے خسرہ کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بچوں میں اموات کی زیادہ تر وجہ خسرہ کی مرض کے انسداد کے لیے ٹیکے بچوں کو نہ لگنے کی بناء پر ہوتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ شعور نہ ہونا ہے۔ جب تک عوام میں کسی بھی مرض کے مضمرات، ان کے انسداد کے ثمرات کا صحیح علم، آگاہی نہیں ہوتی، تب تک ایسی کاوشوں کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔
وطن عزیز خسرے کے خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ کسی بھی مرض کے علاج پر پیشگی بچاؤ کی مہم جوئی نہ ہو تو پھر اس مرض کو کنٹرول کرنے پر 10 گناء زیادہ خرچہ آتا ہے۔ عالمی ماہرین نے بھی خسرہ کی بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے ویکسینیشنزپر زور دیا ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کے مطابق مخصوص عمر کی 95فیصد ویکسین پلائی جانی چاہیے۔ کیونکہ 80 فیصد ویکسین کے بعد بھی خسرہ کی بیماری کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ جب وطن میں آزاد جموں و کشمیر اور پنجاب کو چھوڑ کر ماندہ صوبوں میں ویکسین کی شرح 50 فیصد تک ہوتی ہے اس خطرناک بیماری اور اس کے تدارک کے لیے 15سے 27 اکتوبر تک انسدادِ خسرہ کی خصوصی مہم جاری ہے۔ اس دوران نچوں کو خسرہ کی ویکسین پلائی جانی چاہیے لیکن کئی والدین بچوں کو ویکسین نہیں پلاتے۔ کسی بھی بیماری اور اس کے سنگین خطرات سے نمٹنے کے لیے عوام میں شعور و آگاہی بہت ضروری عنصر ہے۔ اگر بیماریوں اور ان کے تدارک کے لیے بروقت بذریعہ میڈیا، تقریبات، آرٹیکلز عوام الناس میں شعور بیدار ہو تو کافی حد تک ا ن مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایسی مہلک امراض، عالمی ایام کے دوران ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس حوالہ سے ورکشاپ، سیمنار، تقریبات کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ بچوں کے اندر ایسی بیماریوں سے بچاؤ کاشعور بیدار ہو اور زیادہ سے زیادہ عوام کو پیغام پہنچ سکے اور انسانی جانوں کا ضیاع روکا جا سکے۔ کوئی بھی مرض لاعلاج نہیں۔ بروقت علاج، احتیاطی تدابیر وقت کا اہم تقاضا ہے۔