کسی بھی قوم یا معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ اہلِ قلم ہی ادا کرتے ہیں۔ یہ صاحبانِ علم و دانش ہی ہوتے ہیں جو عام افراد کی ذہنی آبیاری کرتے ہیں اور اس طرح قیادت کرتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی حالت، کردار کا جائزہ اس قوم کے اہلِ قلم کے نظریات اور کردار سے لگایا جاسکتا ہے۔
آصف محمود کی تصنیف "پس قانون" ایک مکمل دستاویز ہے۔ یہ کتاب ہماری احساس کمتری، نظامِ قانون کی ناکامیوں اور نقائص پر مدلل دستاویزی ثبوت ہے۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اپنا بہترین دستور قرآن و سنت ہونے کے باوجود آج تک غیروں کے کس طرح مرہنون منت ہیں۔ "نوآبادیاتی قوانین اور کلچر کے ساتھ لارڈ میکالے کا پیدا کردہ یہی طبقہ ہے جو آج بھی ہمارے سماج کے لئے اذیت اور امتحان بنا ہوا ہے۔
زبانیں ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہیں اور حصول علم بھی۔ انگریزی زبان کی مادی افادیت سے بھی انکار ممکن۔ لیکن جب آپ دیگر زبانوں کو اس حقارت سے ٹھکرا دیں اور انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ ایسے طبقے کے ظہور کی خواہش بھی کریں جو انگریزی زبان ہی بولتا ہو بلکہ جو اپنے ذوق، اپنی فکر، اپنے اصولوں اور اپنے فہم کے اعتبار سے انگریز ہوتو پھر یہ ایک علمی مشق نہیں رہتی، یہ ایک پوری تہذیبی واردات بن جاتی ہے۔ اسی کو استعمارات (Colonialism)کہتے ہیں۔
علاوہ ازیں مجموعہ تعزیراتِ پاکستان، وہ قانون ہے جو انگریزوں نے 1860ء میں، یہاں نافذ کیا۔ فوجداری قانون کی دوسری دستاویز، مجموعہ ضابطہ فوجداری ہے جو1898ء میں نافذ ہوا۔ ہماری عدالتیں آج بھی اس کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔ یہی نہیں ضابطہ دیوانی بھی وہی ہے جو 1908ء میں انگریزوں نے نافذ کیا تھا۔ پولیس ایکٹ، جو کہ 1860ء میں انگریزوں نے ایک پولیس کمیشن بنایا اور اس کی سفارشات کی بنیاد پر یہاں ایک پولیس ایکٹ نافذ ہوا"۔ اس کے علاوہ۔ یوں تو یہ کتاب ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ ہمارا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس میں وہ پیغام ہے جو عوام کی فکری سوچ کو اجاگر کرنے کے لئے کلیدی کردار کا حامل ہے، لکھتے ہیں"نو آبادیاتی آزار: پس منظر، احساس کمتری: نو آبادیاتی ورثہ؟ ، برصغیر کا اسلامی نظام، پولیس: پاکستان کی یا ملکہ وکٹوریہ کی؟ ، نو آبادیاتی قانون: غلامی کی مدون، دستاویز، نظام قانون یا نظریہ غلامی، یہ احساس کمتری کب تک؟"
پس قانون ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہمارا نظام دیکھا رہا ہے کہ آج بھی ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ان کی تحریروں میں وہ دِل گدازی، درد مندی اور علم دوستی سطر سطر، ورق ورق بکھری ہوئی ہے۔ یہ ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہمیں اپنے نظام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ آخر کب تلک ہم لکیر کے فقیر رہیں گے۔
پس قانون، جس میں وہ تمام عوامل شام کئے گئے ہیں، جو یقیناً نوائے وقت ہیں، انہوں نے عوام کی مشکلات کو نہ صرف سمجھا بلکہ محسوس بھی کیا ہے۔ مصنف نے حقائق اور سچائی سے قلم کی حرمت سے تقدس قائم رکھا ہے۔ کتاب محاسن اور تحریروں کو لڑی میں پرونا ان جیسے اعلیٰ ظرف لوگوں کا کام ہے۔ آپ کی تحریروں کے بے شمار روشن اور تابناک پہلو ہیں۔ کتاب ایک یاد گار ہوتی ہے اور مصنف کی شخصیت، خیالات اور دور اندیشی کا منظر بھی۔ ایسے دلچسپ اور سبق آموز تحریروں کو بحسن وخوبی قلمبند کیا، جو نہ صرف دلچسپی کا مرکز ہیں بلکہ وہ معاشرتی حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ ان کا کتاب کا مقصد و مدعا الفاظ کی دکان سجا کر عوام کے لئے چٹ پٹا مواد فراہم کرنا نہیں بلکہ نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم کیسے اپنی تہذیب کو اپنا کر ایک کامیاب انسان بن سکتے ہیں۔
یہ کتاب اپنے دامن میں بے پناہ ناقابل تردید سچائیاں، سربستہ راز، ان کہی کہانیاں اور بے رحمی حقائق لئے ہوئے ہے۔ دراصل یہی کتابیں نسلِ نو کا مستقبل سنوارنے کی بہترین مثال ہیں، لیکن نہ تو نسل نو کو ایسی ناقابل فراموش خدمات کی اہمیت کا اندازہ ہے اور نہ ہی ہمیں کو ایسے مواد سے غرض ہے جس میں ایک پیغام ہو جو نسلِ نو کی اصلاح احوال کا موجب بنے، ہمیں سیاسی، تنقید برائے تنقید سے فرصت نہیں کہ ایسی نایاب کتابوں کا مطالعہ کرسکیں۔
معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اٹھا ہوا قلم قوموں کی تقدیر بدلنے میں کردار ادا کرتاہے۔ قلم کو جہاد کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا تاہے۔ ایک قلم کار اگر قلم کا صحیح استعمال کرے تو وہ معاشرے کو صحیح خطوط پر استوار کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے، معاشرے کی تربیت کر سکتا ہے۔ قلم خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی قوموں کو جھنجھوڑنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قلم کبھی ابر گوہر بار ہوتا ہے اور کبھی تیغ جو ہر دار ہوتا ہے، کبھی شہریار اصیل ہوتاہے کبھی صور اسرافیل ہوتا ہے کبھی یہ ناموس وطن کا نشان ہوتا ہے، کبھی حق کا پاسبان ہوتا ہے، کبھی اَدب عالیہ کی تخلیق کا وسیلہ ہوتا ہے اس کے بہت سارے کام ہیں جن کا ذکر شورش کاشمیری نے اپنے اشعار میں کیا ہے: سچائی حرف کا حسُن ہے۔ حرف حقائق کے نور میں لپٹا ہوگا تو با وقار اور با اعتبار ہوگا۔ اس میں طاقت ہوگی دبدبہ ہوگا، وہ محتسب بھی ہوگا اور رہنما بھی اور اگر وہی حرف جھوٹ اور ملاوٹ کے لبادے میں لپٹا ہوگا یا مفادات کی زنجیروں میں جکڑا ہوگا تو بے وقار اور رسوا ہوگا۔
صادق جذبہ اور خلوص تحریر کو منور کر دیتا ہے اور حرفوں کی فصل کو نکھار بخشتا ہے جب کہ عناد اور مفاد اس لہلہاتی فصل کو اجاڑ دیتا ہے اور تحریر کو بے روح اور بد صورت بنا دیتا ہے۔ ہم قلم کی افادیت، مقام و مرتبہ ہی بھول گئے، ہم نے حرف کا سَتر قائم نہیں رہنے دیا، اس کی حرمت پامال کرکے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
قلم کے ذریعے جو علم کی روشنی پھیلائی جاتی ہے وہ مستقبل کی تاریخ کے دریچوں کو روشن کرتی ہے، انسانیت کے قافلے اس کی روشنی میں اپنا سفر طے کرتے ہیں، اس لیے قلم کا فائدہ زیادہ عام اور اس کا فیض مدام ہے۔ اسی لیے تحریر کو تقریر پر فضیلت حاصل ہے، کیوں کہ تحریر کی تاثیر گردش شام وسحر کی زنجیر سے آزاد رہتی ہے۔
اکثر لکھاری مسائل تو بڑے شد و مد سے بیان کرتے ہیں، تنقید بھی خوب مہارت سے کرتے ہیں لیکن ان کا مثبت اور تعمیری حل پیش نہیں کرتے خصوصاً آج کل نوجوان نسل کو پیش آمدہ مسائل جو ان کی زندگیوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہے ہیں۔ وہ مسائل دراصل ہیں کون سے اور ان کا حل کیا ہے؟ یہ سب آپ کو پس قانو ن میں ملے گا۔ مصنف نے ہمارے معاشرتی مسائل پر نا صرف نہایت عمدہ اسلوب اپنایاہے بلکہ خامیاں کہاں ہیں، کیسے پیدا ہوتی ہیں، نتائج کیا نکلتے ہیں اور ان سے بچا کیسے جاسکتا ہے اس سب پر نہایت سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
تلخیء دوران اور تشنہ لبی کے اس وقت میں پس قانون، کسی تریاق اور جام شیریں سے کم نہیں۔ اب یہ صاحبان اختیار اور عوام الناس پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آپ کو فیض یاب کرتے ہیں یا تہی دست و تہی داماں رہتے ہیں۔