چند دن پہلے نیوز چینل پہ ایک بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ ایک ہسپتال میں آپریشن کے لیے آئی خاتون کو بے ہوشی کی حالت میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ویسے تو بطور انسان مجھے بہت افسوس بھی ہوا اور ایک عجیب سی شرمندگی بھی ہوئی کہ ہم کیسی قوم ہیں جو گناہ کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے ہمارے گناہ کرنے کے نت نئے طریقے دیکھ کر شائد شیطان بھی شرما جاتا ہوگا۔ جس ملک میں مردہ خواتین کو قبر سے نکال کر میت کے ساتھ زنا کیا جاتا ہو وہاں بے ہوش عورت کے ساتھ ایسا فعل سر انجام دینا کوئی عجیب بات نہیں۔
ہسپتال ہو یا تھانہ کچہری جایئں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی جنگل میں آگئے اور ہمارے اردگرد بھیڑیے ہیں اور موقع ملتے ہی ہمیں چیر پھاڑ دیں گے۔ اور اگر آپ کے ساتھ کوئی خاتون ہے تو پھر نوجوان سے لے کر بھیک مانگنے والا بابا اس خاتون کا چلتے چلتے ایکسرے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک عجیب ہوس زدہ ماحول ہے ہمارے معاشرے کا خود سوچیں ان لوگوں کی ذہنی حالت اور سوچ کیسی ہو گی جو آپریشن تھیٹر میں بچے کی پیدایش کے لیے آنے والی خاتون کو بے ہوشی کی حالت میں زیادتی کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔
لیکن کہیں نا کہیں ہم بھی اسی جرم میں شریک ہیں ہم خود اپنی خواتین کو ان لوگوں کے حوالے کرتے ہیں غیرت کے نام پہ خواتین کو قتل کرنے میں سب سے پہلا نمبر لینے والی قوم کے غیرت مند مرد حضرات کی غیرت اس وقت جوش میں کیوں نہیں آتی جب اپنی عورت کو اکیلے کئی مردوں اور چند نرسوں کے ساتھ آپریشن تھیٹر میں بھیج دیتے ہیں۔ بے شک سب لوگ ایسے نہیں ہیں لیکن اکثر شیطان صفت لوگ ان مسیحاوں کے لبادے میں موجود ہیں ان کی پشت پناہی کے بغیر عملے کا کوئی بھی فرد یہ قبیح فعل سرانجام نہیں دے سکتا۔ ڈاکٹر حضرات تو آپریشن کے بعد ٹانکے لگا کر فارغ ہو کر اپنے دوسرے مریضوں کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں لیکن بعد میں مریضہ کو کپڑے پہنانے والوں میں ہسپتال کا صفائی کا عملہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہےکیونکہ انکو اپنے اپنے انعام کی جلدی ہوتی ہے اور یہ لوگ زیادہ تر غیر مسلم ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے سرگودھا کے بڑے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک سیلفی بہت مشہور ہوئی تھی جس میں انکے پیچھے ایک مریضہ نیم برہنہ حالت میں بے ہوش پڑی تھی اور ڈاکٹر حضرات اس کے سامنے کھڑے ہو کر سیلفی لے رہے تھے۔ سعودی عرب ہو یا دوسرے عرب ممالک وہاں دوران آپریشن مریضہ کا خاوند یا انکے گھر کا کوئی فرد دوران آپریشن وہاں لازمی موجود ہوتا ہے۔
ایک اور بات کی بھی سمجھ نہیں آتی مریضہ کو بےہوش کرنے کے لیے ہمیشہ مرد حضرات ہی کیوں آتے ہیں کیا کوئی خاتون ڈاکٹر بے ہوشی کا انجیکشن نہیں لگا سکتی؟ کیا خاتون ڈاکٹر خواتین کا خود آپریشن نہیں کر سکتی؟ ہزاروں روپے دے کر ہم اپنی خواتین کو ان کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتے ہیں جبکہ سو میں سے اسی فیصد خواتین کی نارمل ڈلیوری ہونا ہوتی ہے لیکن پیسے کمانے کے چکر میں عین وقت پہ کہہ دیتے ہیں آپریشن ضروری ہے ورنہ مریضہ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے اور ہم ناچاہتے ہوئے بھی آپریشن کروا لیتے ہیں۔
ضروری نہیں ہر جگہ ایسا ہوتا ہو گا لیکن جو واقعات اب سننے کو مل رہے ہیں بعید نہیں ہر ہسپتال میں یہ شیطانیت پھیل جائے حکومت کو بھی اس پہ غور و فکر کر کے کوئی سخت سے سخت قانون بنانا چاہیے اور وہ ہسپتال جہاں یہ قانون نافذ ہوتا ہے کہ مریض کے ساتھ وارڈ میں رات کو کوئی نہیں رہ سکتا وہاں خاندان کے ایک فرد کو ساتھ رہنے کی اجازت دینی چاہیے اور آپریشن تھیٹرز میں مریضہ کا خاوند یا کوئی قریبی عورت ساتھ ہونی چاہیے۔ شائد کچھ لوگ مجھے پرانے خیالات کا سمجھ کر میری بات کا مذاق اڑا دیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
پرودگار محمد وآل محمد ع کے صدقے سب کی عزت و ناموس کی حفاظت فرمائے۔ آمین