1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. امجد عباس/
  4. ڈاکٹر ذاکر نائیک

ڈاکٹر ذاکر نائیک

ہمارے بعض دوستوں کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ پاکستان سمیت مختلف ممالک میں، مختلف مسالک کے علما نے خواتین اور دوسرے فرقوں کی بابت اپنے اصلی نظریات کو چھوڑ کر، قدرے معتدل رویہ اختیار کیا ہے۔ اگر کوئی عالم باہر سے آئے جو اس صورتحال سے آگاہ نہ ہو تو وہ جو اپنی طرف سے "خالص مذہب" پیش کرے گا آپ سن کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے یہ بات سچ کر دکھائی ہے۔ وہ ابھی تک قدرے رجعت پسند ممالک میں ہی گھومے پھرے ہیں۔ اگر انھیں بھی مغربی ممالک میں جانے کا موقع ملتا تو بڑی حد تک معتدل ہوتے۔

اسی سے مجھے اہل حدیث عالم، ڈاکٹر صہیب حسن صاحب یاد آ گئے جنھوں نے اپنے ایک لیکچر میں بتایا تھا کہ وہ جب پہلی بار لندن گئے تو وہاں انھوں نے خواتین کی موجودگی میں گفتگو میں اظہار کر دیا کہ خواتین ناقص العقل ہوا کرتی ہیں۔

فرمایا کہ خطاب کے دوران میں ہی انتظامیہ نے پرچی دی کہ یہاں موجود خواتین آپ سے سخت نالاں ہیں، خواتین کی بابت نامناسب الفاظ پر آپکے خلاف قانونی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ فرمایا کہ پرچی پڑھتے ہی میری کیفیت بدل گئی، مشکل سے معاملہ سنبھالا۔

اب سوچیے کہ کوئی شیعہ عالم اچانک باہر سے آ کر، ناصبیوں کی بابت بیانات شروع کر دے یا کوئی دیوبندی عالم آ کر بریلویوں کو مشرک کہنے کے پرانے فتاویٰ پیش کرنا شروع کر دے یا کوئی بریلوی عالم باہر سے آ کر حسام الحرمین اور فتاویٰ اعلی حضرت کی رو سے دیوبندیوں کو بدترین کافر کہنا شروع کر دے یا کوئی جماعت المسلمین والا باقی سب اہل حدیثوں کو سر عام میڈیا پر اور پروگراموں میں مشرک قرار دے، ساتھ ہی کہے کہ یہ سب ہماری اصلی تعلیمات میں موجود ہے تو اس بابت خاموشی برتی جائے گی یا کہا جائے گا کہ ہم مشکل سے یہاں تک پہنچے ہیں کہ ایک دوسرے کی تکفیر نہ کی جائے، آپ اس ماحول کو، ان ماضی کے فتاویٰ کی رو سے خراب نہ کریں۔

یہی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو بھی سمجھنا ہے کہ پاکستان میں بچیوں اور خواتین پر ابھی تک مشکل وقت ہے، پڑوس کی اسلامی امارت نے ان کی تعلیم پر پابندی لگا رکھی ہے جبکہ پاکستان میں مشکل سے یہ اب تعلیم سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں آ رہی ہیں تو ایسے میں ان کی بابت نفرت آمیز اور امتیازی بیانات نہ دیں۔

یہ ذمہ داری ریاست اور ڈاکٹر صاحب کو بلانے والوں کی بھی ہے کہ وہ انھیں ان کے اپنے اصل میدان تک محدود رکھیں۔

ان کا بے شوہر خواتین (جن میں مطلقہ اور بیوہ بھی شامل ہیں) کو پبلک پراپرٹی کہنا انتہائی افسوس ناک ہے، کتنے مذہبی گھرانوں میں بھی مطلقہ اور بیوہ خواتین موجود ہیں جو نئی شادی کے بغیر اچھے سے رہ رہی ہیں، کئی مذہبی خواتین شادی کرنا پسند ہی نہیں کر رہیں کہ شادی فرض نہیں ہے، اسی طرح متعدد تعلیمی اداروں میں مذہبی اساتذہ گھنٹوں طالبات کو پڑھاتے ہیں، اسی طرح مختلف اداروں اور پبلک مقامات پر ان کا خواتین کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے، لیکن انھیں وہ کچھ نہیں ہوتا جس کی ایسی صورت حال میں (بیس منٹ کے بعد) ڈاکٹر صاحب کو توقع ہے۔

وہ جتنا اپنے اصلح میدان کے علاوہ دیگر موضوعات پر بات سے بچیں گے اتنا اُن کے اپنے لیے اچھا ہے، ورنہ اس دفعہ والے عورت مارچ کی شدت کا ابھی سے اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ایسے افسوس ناک بیانات کو "اسلامی تعلیمات" سمجھا جا رہا ہے ایسے میں یہ سب بھگتنا اہل مذہب کو ہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ایسے ہی بیانات کا سلسلہ جاری رہا تو یہ پاکستان میں نوجوانوں میں بڑھتی مذہب بیزاری کی لہر میں اضافے کا سبب قرار پائیں گے۔