اختلاف کی صورت میں سب سے غلط اور غلیظ ردِ عمل "اہلِ مذہب" کی جانب سے آتا ہے۔ اسلام میں گالی گلوچ، سب و شتم، اہانت، توہین، کردار کشی اور ایسے مذموم افعال کی شدت سے ممانعت کی گئی ہے۔ مُلحد، سیکولر، بے دین یا جاہل و اُجڈ قسم کے لوگوں سے بُرے رویوں کا شکوہ نہیں، دُکھ تب ہے جب مذہب کی تعلیمات کا دَم بھرنے والے غیر انسانی، غیر اخلاقی رویے اپنائیں۔
اہلِ ایماں کی پرانی روش ہے کہ جس سے اختلاف ہو، تب مذہبی اخلاقی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے۔ بے جا الزامات، تہمتیں، گالیاں، جھوٹے پروپیگنڈے، مارپیٹ اوراوچھے ہتھکنڈے ثواب جان کر اپنائے جائیں۔
چند تاریخی واقعات ملاحظہ کیجیے:
1- جمعیت علماء ہند کے ایک وفد کی اپنے سیاسی حریف (جمعیت علماء اسلام کے صدر) علامہ شبیر احمد عثمانی سے باہمی سوال و جواب، شکوہ و شکایت پر مشتمل ایک طویل گفتگو ہوئی، جو مکالمہ الصدرین کے نام سے چھپی، وفد میں مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی صاحب جیسے بزرگ شامل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قیامِ پاکستان کے مسئلہ پر علامہ شبیر احمد عثمانی کے جمعیت علماء ہند کے ساتھ اختلافات چل رہے تھے۔ گفتگو کے دوران جمیعت کے وفد نے اعتراض کیا کہ آپ کے لیگ کے انگریزی خوان طلبہ نے مولانا حسین احمد مدنی صاحب کی گستاخی کی، اس کا علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے یُوں جواب دیا
" اس موقع پر مجھے ایک بات کہنا پڑ رہی ہے کہ جن انگریزی خوان طلبہ کے رویے کی شکایت آپ فرما رہے ہیں وہ نہ تو ہمارے مرید ہیں نہ شاگرد، نہ انہوں نے کسی دینی ماحول میں تربیت پائی ہے۔ اس کے مقابلے میں جو مذہبی مدارس کے طلبہ آپ کے شاگرد اور دینی ماحول بلکہ مرکز دین و اخلاق میں تربیت پانے والے ہیں ذرا ادھر بھی تو دیکھیے کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے!
دارالعلوم دیوبند کے طلباء نے جو گندی گالیاں، فحش اشتہارات اور کارٹون ہمارے متعلق چسپاں کیے جن میں ہم کو ابوجہل تک کہا گیا اور ہمارا جنازہ نکالا گیا۔ آپ حضرات نے اس کا بھی کوئی تدارک کیا؟ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت دارالعلوم کے تمام مدرسین، مہتمم اور مفتی سمیت بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھ سے تلمذ رکهتے تهے۔ دارالعلوم کے طلباء نے میرے قتل تک کے حلف اٹهائے اور وہ فحش اور گندے مضامین میرے دروازے میں پھینکے کہ اگر ہماری ماں بہنوں کی نظر پڑ جاتی تو ہماری آنکھیں شرم سے جھک جاتیں۔ کیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ملامت کا کوئی جملہ کہا؟
بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے لوگ ان کمینہ حرکات پر خوش ہوتے تھے"
(خطبات عثمانی صفحہ 147 مرتب: پروفیسر مولانا محمد انوار الحسن شیر کوٹی صاحب
ناشر: مکتبہ دارالعلوم کراچی۔ مکالمہ الصدرین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے)
2- برصغیر کے معروف دینی سکالر، آیۃ اللہ علامہ سید علی نقی نقن صاحب نے کربلا کے حوالے سے ایک تحقیقی کتاب بعنوان "شہیدِ انسانیت" ترتیب دے رہے تھے، اُنھوں نے اپنی اِس کتاب میں واقعہ کربلا کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، ضعیف واقعات کی تردید کی، ایک جگہ رقم کیا کہ میدانِ کربلا میں دسویں محرم کی رات امام حُسینؑ کے ساتھی خیموں میں پانی لے آئے تھے۔ کتاب کا مُسودہ سامنے آیا ہی تھا کہ برصغیر میں شورِ بدتمیزی برپا ہوا، مولوی صاحبان نے بھرپور مظاہرے کروائے، علامہ صاحب کا بائیکاٹ کیا گیا۔ کتاب کے مُسودے کو نذرِ آتش کیا گیا، بعد ازاں ایسے "قابلِ اعتراض" واقعات نکال کے اُسے شائع کیا گیا۔ اہلِ ایماں نے علمی جواب کے بجائے قوت، جھوٹے پروپیگنڈوں اور کردار کشی سے بزرگ عالم دین کو خاموش کروا دیا۔
3- ماضی میں سر سید، غلام احمد پرویز، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی اور حال میں علامہ محمد حسین نجفی، جاوید احمد غامدی اور اِن جیسے صاحبانِ علم سے اختلاف بجا، لیکن مذہبی طبقوں نے علمی جواب دینے کی بجائے گالی گلوچ، سب و شتم، توہین، بے الزامات اور جھوٹے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا ہے جو انتہائی دل سوز ہے۔
سوشل میڈیا پر مجھے بھی اپنے مذہبی دوستوں کی جانب سے اختلاف کی صورت میں مناسب علمی جواب کے بجائے سب و شتم، الزمات، تہمتوں، اہانت اور کردارکشی کا ہی سامنا کرنا پڑا، یُوں اپنے مذہبی احباب سے محفوظ رہنے کے لیے مجھے درجنوں تحریریں مٹانا پڑیں یا لکھنے سے قاصر رہا ہوں۔
اِس رویے کو کیا کہیں صاحب!