عقیدے اور نظریے کے اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کرنا کتنا سفاکانہ عمل ہے۔ اسلام میں جان بوجھ کر بے گناہوں کو قتل کرنے کی سزا ہمیشہ جہنم بتائی گئی ہے۔ عصرِ علوی میں خوارج کا فتنہ ابھرا، یہ گروہ اپنے نظریاتی مخالفین کی تکفیر اور قتل و غارت گری کا علمبردار تھا، حضرت علیؑ نے اِن کی بھرپور سرکوبی کی۔ افسوس موجودہ دور میں مذہبی انتہاء پسند، دہشت گرد گروہ ہمارے عصر کے خوارج ہیں۔ اِنھیں سختی سے روکنا ہوگا۔
اسلام میں اختلافی امور پر کسی ایک گروہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دیگر گروہوں کو کسی ایسے امر پر عمل سے بزورِ طاقت روکے جو اُن کے نزدیک جائز ہے۔ مسلم ممالک میں آمر حکمرانوں نے اپنے نظریات و مسالک زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کی، موجودہ دور میں سعودی عرب کی حکومت اپنے مذہبی نظریات کو زبردستی سبھی پر مسلط کر رہی ہے۔
روضہ رسول اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت اور اُنکی تعظیم کئی اسلامی مسالک کے ہاں جائز اور درست ہے، لیکن سعودی سلفی حکومت نے اِن مقامات پر نیم خواندہ مولوی صاحبان مقرر کر رکھے ہیں جو زبردستی لوگوں کو زیارت اور تعظیم سے روکتے ہیں، ڈنڈے مارتے ہیں، مشرک گردانتے ہیں، یہ جدید خارجی رجحان ہے۔ جب کسی کلمہ گو کو مشرک قرار دے دیا جائے تو بطورِ مرتد اُس کا قتل تو آسان سی بات ہے۔
بلوچستان میں شاہ نورانی کے دربار پر دھمال ڈالنے میں مشغول ملنگوں کو اِسی سوچ کے تحت شہید کر دیا گیا، دھمال کے جواز و عدم جواز سے قطع نظر، کسی بے گناہ کو قتل کرنا انتہائی جرم ہے، دائمی جہنم کا باعث۔۔
ہاں دھمال کو زیادہ سے زیادہ حرام کہہ لیجیے لیکن یہ کفر و شرک ہرگز نہیں، اور کفر و شرک کی بجا آوری پر کسی کی جان لینا ہرگز جائز عمل نہیں ہے۔
ایک عرصے سے مساجد، امام بارگاہوں، درباروں، پبلک مقامات اور ہر جگہ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے جس کے پیچھے بنیادی طور پر مذہبی انتہاء پسندوں کی خارجیت والی سوچ کارفرما ہے۔ ایسی سوچ کے حامل عناصر انسانیت کے مجرم ہیں، اِن کی سرکوبی کرنا ہوگی ورنہ روزانہ ایک مذمتی بیان جاری کرتے رہیے۔