السلام علیکم ناظرین۔ آج میں آپکے سامنے ایک انتہائی معزز اور مشہور و معروف شخصیت کا انٹرویو کرنے جا ر ہا ہوں۔ ہو سکتا ہے زندگی میں آپ کا بھی متعدد با ر اس سے واسطہ پڑا ہو ا گر نہیں پڑ ا تو ممکن ہے کبھی بھی اس سے آپکا واسطہ پڑ جائے یہ کسی بھی دفتر محکمے دکان ہوٹل گلی محلے میں آپ کے ساتھ اپنی کاریگری کا مظاہر ہ کر سکتے ہیں۔ اور وہ کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں تشریف لاتے ہیں آپ کی بھر پو ر تالیوں میں ایک انتہائی تجربہ کا ر منجھے ہوئے معاشرے کے چور۔
کمر پہ ہاتھ رکھے لنگڑاتے ہوئے ایک شخص کمرے میں روتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔
میزبان۔ ارے بھئی آپ رو کیوں رہے ہیں؟ کیا ہوا آپ کو؟
چو ر۔ تو اور کیا کروں لگتے ہاتھ پاکستان کی پُلس ہے ای اتنی ظالم مار مار کے مجھے ایکسٹرا آر ڈ نری موٹا کردیا ہے وہ بھی صرف ایک مخصوص جگہ سے۔ اتنے موٹے موٹے پیٹ ہیں ان کے آنکھوں پہ بھی چربی چڑھی ہوئی ہے پر مجال ہے نشانہ چوک جائے لگتا ہے پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو چھتر مارنے کے لیے بس ایک ہی جگہ پسند ہے لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ اچھا ہم بیٹھ کے بات کرتے ہیں آپ تشریف رکھیے۔
چو ر۔ (غصے سے) خبر دا ر تشریف کا نام لیا تو پولیس والے تھانے میں میری تشریف آوری کا ہی تو شکریہ ادا کرتے رہے ہیں لگتے ہاتھ۔ اور بھائی جو بندہ تھانے سے آتا ہے اسے بھول کر بھی بیٹھنے کا نہیں کہنا جو پو چھنا ہے کھڑے کھڑے ہی پوچھ لو بھئی۔ اور مجھے جلدی جلدی جانے دو بھائی گرم گرم پہ ہی ہلدی نمک کی ٹکور کرلوں گا تو جلد افاقہ ہو جائے گا ورنہ اپنے دھندے کی تو ماں بہن ہو جائے گی لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ اچھا آپ مجھے یہ بتائیں آپ چوری کیوں کرتے ہیں۔
چو ر۔ ہیں یہ کیا پوچھ رہے ہو بھائی لگتے ہاتھ؟
میزبان۔ میں نے پوچھا کہ آپ چوری کیوں کرتے ہیں۔
چو ر۔ اوہ بھائی پر سنل باتیں پوچھنے سے گریز ہی کرو تو اچھا ہے لگتے ہاتھ؟
میزبان۔ کیا مطلب؟
چور۔ مطلب صا ف ظاہر ہے میں غریب ہوں اس لیے مجھے ذاتی باتیں پوچھ کر میری عزت اچھال رہے ہو کبھی کسی سیاست دان سے بڑے افسر بزنس مین سے بھی پوچھا ہے کہ وہ چوری کیوں کرتے ہیں۔ سارا کا سارا ملک اسی کام پہ لگا ہوا ہے لگتے ہاتھ۔ تم بھی تو چو ر ہو۔
میزبان۔ میں، میں نے کیا چوری کی ہے۔
چو ر۔ بھئی چور نہ ہوتے آج کسی نوکری پہ نہ ہوتے کام چور کہیں کے۔۔ اکثر سیاست دانوں کی طرح تم نے بھی تعلیم حاصل نہیں کی سکول سے چوری بھاک جایا کرتے تھے تم میرا منہ نہ کھلو اؤ لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ اچھا تم چوری کیسے کرتے ہو۔
چو ر۔ لو جی بھئی آپ کو میزبان کس نے بنایا ہے تمھیں چوری کے رہنماء اصول ہی نہیں معلوم کیا تم پاکستانی نہیں ہو۔ اوہ بھائی چند سیاست دانوں کو فالو کر لو چوری میں پی ایچ ڈی کر ر کھی ہے انھوں نے اب میر ا منہ نہ کھلوائیو لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ آپ کے کتنے بچے ہیں؟
چور۔ نہ ہوئے تو شادی کرو ا دو گے کیا لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ نئیں دیکھیں میں معاشرے کو آپ کی مجبوریاں بتانا چاہتا ہوں تاکہ لوگ آپ سے نفرت نہ کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ آپ کی تکالیف اور پر یشا نیوں کو سمجھ سکیں اور کچھ ایسا ہو کہ آپ چوری چکاری سے تو بہ کر لیں۔
چور۔ ہماری کونسی مجبوریاں ہیں بھائی خون میں حرام شامل ہے بس بچوں کا پیٹ تو ہم اپنی محنت کی کمائی سے بھی پال سکتے ہیں یہ تو بس اشٹیٹس کو قائم رکھنا ہے۔ باپ دادا کے کام کو ہم کیسے چھوڑ دیں اور تمھیں کس نے کہا کہ اس ملک میں لوگ چوروں سے نفرت کرتے لگتے ہاتھ۔۔ ہیں؟ عجیب بے وقوف میزبا ن ہو تم۔ میرے بھائی اس ملک میں فی الحال صرف چوروں کی ہی تو عزت ہے ہم چوروں کو صرف ایک تکلیف ہے۔ اس کا کوئی حل نکال دیجیے لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ جی جی بتائیں۔ اور یہ ہر بات پہ آپ لگتے ہاتھ کیوں کہتے ہیں۔
چو ر۔ پہلے اس لگتے ہاتھ کا جواب سن بھائی پھر مت کہنا کہ میرے سارے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ میزبان۔ جی جی۔۔
چور۔ بھئی جب تم خالہ کے ہاں ملنے جاؤ اور ساتھ والی گلی میں نُکڑ پہ ماموں کا گھر ہو تو آپ بیوی سے نہیں کہتے کہ چلو ماموں کے گھر سے بھی ہو آئیں لگتے ہاتھ بس یہی والا معاملہ ہے میرے ساتھ بھی میزبان۔ وہ کیسے؟
جب کسی کالونی میں چوری کرتا ہوں تو سوچتا ہوں پھر کہاں دوبارہ ادھر آتا پھروں گا ساتھ ایک دو مزید گھروں میں بھی ہاتھ صاف کر لوں لگتے ہاتھ۔ اور جہاں تک ہمارے مسئلے کی بات ہے تو ہم چور برادری کا اکلوتا مسئلہ یہ ہے کہ (۔ تھوڑ ا میز بان کے کان کے نزد یک ہو کے) یار اس پولیس کو سمجھاؤ ایسے مارتے ہیں جیسے ہر چھتر پہ انھیں 100 نفلوں کا ثواب ملتا ہے او ر انسانی جسم میں صرف ایک ایسا مقام ہے جو ا ن کا پہلا اور آخری ٹارگٹ ہوتا ہے بس اس پہ تھوڑا رحم کھائیں اور ہاں ایک بات بہت اچھی ہے پولیس کی لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ وہ کیا؟
چور۔ (ایک بار پھر میزبان کے کان کے قریب ہو کے) مشورے کے علاوہ جو دے د و چپ چاپ رکھ لیتے ہیں لگتے ہاتھ۔ پچھلی دفعہ میں ایک حوالدا ر کو پیمپر کے دو پیکٹ دے آیا تھا بڑا خوش ہو ا کہنے لگا بہت شکریہ بیگم روزانہ کہتی تھی پیمپر لانا آج خوش ہو جائے گی لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ آپ چوری کرنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
چور۔ (غصے سے) کر دی نہ جاہلوں والی بات بھائی پروڈیوسر کو بلاؤ جس نے اسے یہ پروگرام دیا ہوا ہے لگتے ہاتھ میرے باپ تو کیا کروں پٹرول کے ٹینکر لوٹا کروں؟ دالوں مرچ مصالوں میں دودھ میں ملاوٹ کیا کروں سبزیوں پھلوں خربوزوں دھوانوں (تربوز) کو زیادہ میٹھا کرنے کے لیے اسکرین او ر دوسرے زہریلے کیمیکل کے ٹیکے لگایا کروں۔ جعلی جوس او ر شربت بنانے کا کارخانہ بنالوں۔ اللہ کی نعمتوں کو سٹاک کرلیا کروں۔ پرائیویٹ سکول کا دھندہ کر لوں یا سرکاری سکول کا ٹیچر بن جاؤں۔ جعلی میڈیسن بناؤں۔ مر دہ جانوروں کا گوشت بیچا کروں۔ چائے کی پتی میں مرد ہ جانوروں کا لہو اور آلائشیں ملایا کروں کرکٹ پہ جوا لگایا کروں بول کیا کیا کروں ملک کے غریب لوگوں کا پیسہ لوٹ کے دبئی کنیڈا انگلینڈ میں فلیٹ خرید لوں۔ چور قسم کے سیاست دانوں کو روئسہ ااور جاگیر داروں کو فالودے والے سبزی والے کے جعلی بنک اکاؤنٹ بنا کے دیا کروں یہ تیرے والی صحافت مجھے آتی نہیں نہ مجھے کوئی بحریہ اور ڈیفنس میں پلاٹ دے گا۔۔ پولیس میں بھرتی میں نہیں ہو سکتا یا پھر جعلی ڈگری والا سیاست دان بن جاؤں لگتے ہاتھ۔ بتا کیا کروں میرے باپ؟ (منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتے ہوئے) چوری چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ صحافیوں کے ہاتھ میں مائیک آجائے سہی کچھ بھی پوچھنے بیٹھ جاتے ہیں۔
میزبان۔ ہاں سیاست بھی اتنا برا کام تو نہیں سیاسی لیڈر عوامی نمائیندہ ہوتا ہے۔
چور۔ میں نے کب کہا کہ سیا ست غلط کام ہے میں نے کب کہا کہ سیاست دان یورپ میں جا کے پٹرول پمپ پہ نوکری کرتے ہیں۔ میں نے کب کہا کہ سب سیاست دانوں کے پاس اقامے ہیں بھائی۔ بس کچھ سیاست دان غلط ہیں لگتے ہاتھ۔
میزبان۔ غصے سے۔ یہ کیا آپ سیاست دان غلط ہیں سیاست دان غلط کا راگ آ لاپ رہے ہیں۔ بتائیں مجھے بتائیں کو نسا سیاست دان غلط ہے میں اس کو منظر عام پہ لاتا ہوں دنیا کے سامنے ننگا کرتا ہوں اسے آپ
اس کا نام بتائیں یا اس صحافی کا نام بتائیں جو بلیک میلر ہے چور ہے میں اس کا لا ئسینس منسوخ کرواتا ہوں آپ نام بتائیں۔
چور۔ بھائی غصہ کیوں ہوتے ہو۔ اگر سیاست دان کا نام بتاؤں گا تو کل میری ضمانت کون کروائے گا۔ اور ر ہی صحافی کی بات تو تم اپنا ہی محاسبہ کرلو لگتے ہاتھ تم بھی تو صحافی ہو۔
میزبان۔ (انتہائی تلخ لہجے میں کیمرہ بند کرو یا ر اور چور سے) عجیب جاہل انسان ہو تمھیں نہیں پتہ یہ پروگرال لائیو آرہا تھا تمھیں تمیز ہی نہیں ہے چلو نکلو سٹوڈیو سے باہر بدتمیز آؤٹ آؤٹ
چور۔ اچھا بھائی جاتا ہوں جاتا ہوں (اور اپنی شال اٹھا کے منہ ہی منہ میں کچھ بولتا باہر نکل جاتا ہے۔)
میزبان۔ ناظرین میں نے اس چور کو تو ڈانٹ کے باہر نکال دیا ہے لیکن جاتے جاتے وہ ہزاروں سوال چھوڑ گیا ہے کہیں ہم اور آپ سچ مچ تو چور نہیں ہمیں واقعی اپنا محاسبہ کرنا ہے اللہ اس قوم کا حامی و ناصر اجازت دیجئے اللہ نگہبان۔