1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. بابا جیونا/
  4. ریمنڈڈیوس سے سانحہ ساہیوال تک

ریمنڈڈیوس سے سانحہ ساہیوال تک

جس دن سانحہ ساہیوال جیسا اندوہ ناک زندہ روحوں کو تڑپا دینے والا افسوس ناک اور باعث شرم وقوعہ ہوا میں اچانک ٹی وی والے کمرے میں گیا میری بیوی انتہائی پریشان ایک مجسمے کی طرح بالکل ساکت دانتوں میں انگلی دبائےٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں شاید پلکیں جھپکنا بھول چکی تھیں۔ مجھے دیکھ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولی نوید دیکھو یہ کیا ہو رہا ہے۔ دیکھو یہ دیکھو یہ بچی تو ہماری مانو جتنی ہے۔ یہ دیکھو چھوٹی بچی کے ہاتھ میں دودھ والا فیڈر ہے۔ سب مارے گئے سب کے سب مارے گئے پورا خاندان لٹ گیا اب ان بچیوں کا کیا ہوگا۔ کیا ان کے معصوم دل ودماغ سے ان کی آنکھوں سے یہ وہشت ناک منظر کبھی اوجھل ہوگا۔ ان معصوم بچیوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو کتنی بےدردی سے سیدھی گولیاں مار دی گئیں۔ کیا یہ اس قیامت کی گھڑی کو بھول پائیں گی۔ کبھی سکول میں حصول علم کی خاطر گئے پھولوں جیسے ہمارے بچوں کو آرمی پبلک سکول میں سیدھی گولیاں مار کر شہید کر دیا جاتا ہے۔ کبھی لاہور کے گلشن اقبال پارک میں نوخیز کلیوں جیسے بچوں کی معصومیت کو جھولوں پہ کھیلتے ننھے منے پھولوں کو مسل دیا جاتا ہے ان کی اٹھکیلیوں مسکراہٹوں بھولی بھالی شرارتوں اور کھلونوں کوخودکش بمبار کی جیکٹ سے اٹھنے مکروہ شعلوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ ہم تو ابھی تک قصور کی ننھی سی زینب پہ ٹوٹنے والے انسانی مکاری اور درندگی کے پہاڑ ہی نہ بھلا پائے تھے۔ زینب کی فلک شگاف چیخیں آج بھی ان کانوں میں گونجتی ہیں یہ پوری قوم کس گناہ کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ یہ ایک غیر یقینی اور ڈر کی فضا کیوں ں قائم ہو رہی ہے پہلے ہی اپنے بچوں کو اکیلے سکول ٹیوشن اور مدرسے بھیجنے کو دل نہیں کرتا تھا اور اب ہم اور ہمارے بچے سیکیورٹی اداروں کی غلط فہمیوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔ میرے پاس اپنی بیوی کو تسلی دینے کے لیے بالکل بھی الفاظ نہیں تھے۔ جس طرح سانحہ ساہیوال پہ ناراض قوم کو دلاسہ دینا کسی بھی سرکاری اہل کار کے لیے ممکن نہیں بالکل اسی طرح میں اپنی بیوی کی اشکبار آنکھوں اور ڈھلتی شام میں فاختاؤں کی پرسوز صداؤں جیسی ہچکیوں کے سامنے کوئی بھی دلیل دینے سے نہ صرف مکمل قاصر تھا بلکہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ کاروئی پہ شرمندہ بھی تھا۔ میری بیوی کی ناراضی بالکل جائز تھی۔ میرا بھی یہ ماننا ہے کہ اس افسوس ناک واقعے میں ملوث سرکاری اہل کار کسی بھی ہمدردی رعایت اور رحم کے کسی بھی طور مستحق نہیں ہیں۔

میری بیوی اس بات پہ معطمن بھی تھی کہ زینب کا مسئلہ ہو لاہور پارک میں خودکش دھماکے میں بچوں کی شہادتیں ہوں۔ آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہو یا ساہیوال میں کارپورل گردی ہو عوامی ردعمل بہت زبردست آیا ہے۔ قوم نے ثابت کردیا کہ ہم اس طرح کے مظالم کے خلاف سیاسی مذہبی فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر ایک قوم ہیں ہم اس طرح کے سانحات واقعات اور حادثات کو نہ ہی قبول کریں گے نہ ہی ایسی مجرمانہ غفلت کی اجازت دیں گے۔ ان مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہیے۔ موجودہ حکومت نے عین عوامی توقعات پہ پورا اترتے ہوئے تمام وقوعہ کی منصفانہ تحقیقات کی ہیں اور ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانے کا قوم سے جو وعدہ اور عزم کیا اسے پورا کرنے میں دن رات تن دہی سے سرگرم عمل ہے۔ فیس بک پہ وٹس ایپ پہ ٹیوٹر پہ عوامی ردعمل دیکھ کر میں بھی بہت حیران ہوں۔ حیران اس لیے کہ پاکستانی قوم تو ظلم اور ظالم کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتی ہے یہ قوم تو ایک سرکاری محکمے کے چند اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے پورے محکمے کو ہی ناکوں چنے چبانے پہ مجبور کردیتے ہیں۔ ڈی آئیجیز ایس ایس پیز کو تبدیل کروادیتے ہیں ایک منظم ادارے کو جس نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر اس قوم کا تحفظ یقینی بنایا ہو جس کے سینکڑوں فرض شناس افسروں کے چرچ گردوارں سڑکوں گلیوں بازاروں مسجدوں امام بارگوہوں اور عام شاہراؤں سے خون کے چھینٹے بھی ابھی تک خشک نہ ہوئے ہوں۔ جن کی ماؤں بہنوں بچوں بیواؤں کے اشکوں سے تر دامن بھی خشک نہ ہوئے ہوں اس پورے محکمے کو غلط اور دہشت گرد تک کہہ دیتے ہیں۔ ہم تو سچ مچ زندہ قوم ہیں۔ پھر چند سوال میرے ذہن میں آتش فشاں پہاڑ کے ابلتے منہ زور لاوےکی طرح اٹھنے لگے۔

میں نے سوچا یار اگر یہ قوم اتنی مہذب باشعور اور خوف خدا رکھنے والی ہے تو ریمنڈ ڈیوس کیسے بچ کے چلا جاتا ہے ریمنڈڈیوس جیسے کرداروں کے لیے وکیل کہاں ںسے پیداء ہو جاتے ہیں۔ انڈین دہشت گردکلبھوشن جیسے جاسوسوں کو کون پناہ دیتا ہے۔ سڑک پہ ڈیوٹی سرانجام دیتے سرکاری اہل کاروں پہ شراب کے نشے میں دھت سیاست دانوں اور حرام لقمے کی پیداوار رئیس زادوں کی گاڑیاں چڑھ جانے پہ ہنگامہ کیوں نہیں ہوتا۔ دہشت گردوں کو ہمارے شہروں دیہاتوں بستیوں محلوں میں کرائے پہ مکان کیسے مل جاتے ہیں۔ جعلی دودھ کہاں سے آجاتا ہے۔ نومولود بچوں کے پینے کے دودھ میں سرف پاؤڈر اور دوسرے مضر صحت کیمیکل کہاں سے آجاتے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیروں پہ معاشقوں کے پیدا کردہ نومولود گناہ کون پھینک جاتا ہے۔ اس مہذب قوم کی خواتین جسم فروشی پہ مجبور کیسے ہوجاتی ہیں۔ مجبور عورتوں کے جسم نوچنے کو گدھ نماء انسان کہاں سے آجاتے ہیں۔ شرابی جواری انسانی جسموں کا کاروبار کرنے والے منشیات فروشوں کی سرپرستی کرنے والے قبضہ مافیاء اور برے لوگ ہمارے کونسلر ایم پی ایز اور ایم این ایز کیسے بن جاتے ہیں۔ بازار میں گدھوں کتوں کا سور کا گوشت کہاں سے آجاتا ہے۔ قوم کو مردہ جانور کون کھلاتا ہے۔ موسمی پھلوں پہ پکنے سے پہلے رنگ کرکے مارکیٹ میں کون دے جاتا ہے۔ اچاری آم سے پہلے پکا آم مارکیٹس میں کیسے آجاتا ہے۔ پھیکے خربوزے کیمیکل لگا کر میٹھے کون کرتا ہے۔ انسانوں کےٹھاٹھیں مارتے سمندر میں کھڑا سبزی فروش ناپ تول میں کمی کیسے کر لیتا ہے۔ اشیائے خورد میں تیزاب کیمیکل اور میٹھے زہر کہاں سے آجاتے ہیں۔ سرخ مرچ کے پیکٹوں میں برادہ اور میتھی کے پیکٹوں میں باتھو کون ڈالتا ہے۔ آئے دن بچوں کی سکول وین کاگیس سلنڈر کیسے پھٹ جاتا ہے۔ روڈ ایکسیڈنٹ کی صورت زخمیوں اور مرجانے والوں کے زیورات پرس موبائل کون لے جاتا ہے۔ فیملی ریسٹوران سے نئے بیاہے جوڑوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پہ وائرل کون کر دیتا ہے۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے بچیوں کے ساتھ سکینڈل کیسے منظر عام پہ آجاتے ہیں۔ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین ہراسمنٹ کی شکائت کیوں کرتی ہیں۔ اسلام آباد میں خواتین کے ہاتھ میں میرا جسم میری مرضی کے بینرز کون پکڑا دیتا ہے۔ چند روپوں کی خاطر انسانی سمگلنگ کون کرتا ہے۔ ایک مزدور ان پڑھ غریب اور سیدھے سادھے انسان کی خوبصورت بیوی قندیل بلوچ کیسے بن جاتی ہے۔ قندیل بلوچ کے قتل میں ایک مفتی اور عالم کا نام کون ڈال دیتا ہے۔ بڑے بڑے مہنگے اور عالیشان ہسپتالوں میں مریضوں کے گردے کون نکال لیتا ہے۔ ہر ڈلیوری کیس کا آپریشن ہی کیوں ہوتاہے۔ ڈلیوری کیس مکمل ہونے کے بعد زچگی کی حالت میں برہنہ پڑی ہوئی ایک بیٹی کے ساتھ ڈاکٹر تصویر بنواکر سوشل میڈیا پہ کیسے لگا لیتے ہیں۔ گلیوں بازاروں میں مائیں بہنیں بیٹیاں سہمی سہمی سی کیوں لگتی ہیں۔ اس قوم کے بچے سکول جانے کی بجائے ہوٹلوں ورکشاپوں اور فیکٹریوں میں مزدوری کرنے کیوں جاتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں ہر جائز ناجائز کام رشوت دے کر ہی کیوں ہوتا ہے۔ ٹاؤٹ مافیاء اتنا معتبر کیوں ہے۔ جعلی ڈگریوں والے سرکاری اہلکار اور سیاسی رہنماء کہاں سے آجاتے ہیں پولیس اگر سچ مچ دہشت گرد ادارہ ہے تو پولیس کی بھرتی کے لیے ہاتھوں میں بڑی بڑی تعلیمی ڈگریاں پکڑے ہوئے بھرتی کی عرضی جمع کروانے والے ہزاروں لوگ کیوں آجاتے ہیں۔۔ پی آئی اے میں انڈر میٹرک عملہ کون بھرتی کر جاتا ہے۔ چوری کی بجلی سے چلنے والے اے سی کے سامنے لوگ دم گھٹ کے مر کیوں نہیں جاتے۔ فیکٹریوں میں گیس چوری کون کرتا ہے اور شریف فیکٹری مالکان کو یہ گیس اور بجلی چوری کے کنکشن کرکے کون دے جاتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات کے ذمہ داران کو زمین کھاگئی یا آسمان نگل جاتا ہے۔ عذیر بلوچ جیسے کرداروں کو پیدا کون کر جاتا ہے۔ صحافیوں کے پاس مہنگے گھر گاڑیاں کہاں سے آجاتے ہیں۔ سرکاری ملازم کروڑ پتی کیسے ہوجاتے ہیں۔ غریبوں ریہڑی والوں فالودے والوں کے بینک اکاونٹس میں عربوں روپے کہاں سے آجاتے ہیں۔ لوگوں کو موبائل پہ انعامات کی جھوٹی خوشخبریاں کون دیتا ہے۔ قبرستان سے مردے کہاں جاتے ہیں۔ اس قوم کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں کون لوٹتا ہے۔ غریبوں کی زمینوں مکانات پہ قبضے کیسے ہو جاتے ہیں۔ اولڈایج ہومز کیسے بن جاتے ہیں۔

قحط کیوں پڑتا ہے۔ خوراک کی کمی سے بچے کیسے مر جاتے ہیں۔ عشق مصطفیٰ سے سرشار عشاق ایک بچے کے کیلے کیسے چھین لیتے ہیں۔ سیاست میں مذہب کارڈ کون کھیل جاتا ہے۔ حج اور عمرہ پہ جانے والوں کا پیسہ کون کھا جاتاہے۔ حج کرپشن کیسے ہوجاتی ہے۔ رمضان المبارک میں مہنگائی کیوں ہو جاتی ہے۔ رمضان المبارک سے ایک دوماہ پہلے سیب کھجوریں بازار سے غائب کیسے ہو جاتے ہیں۔ ہسپتالوں سے سرکاری ادویات کہاں جاتی ہیں۔ میڈیکل سٹور مالکان ہسپتالوں سے چوری شدہ میڈیسن کس طرح خرید لیتے ہیں اور پھر وہی ادویات بیچتے ہوئے غیرت سے مر کیوں نہیں جاتے۔ ناکے پہ کھڑا پولیس والا اتنا مجبور کیسے ہو جاتا ہے کہ وہ لوگوں سے بھکاریوں کی طرح دس دس بیس بیس روپے پکڑ لیتا ہے۔ بڑے بڑے روئسا اور سیاست دانوں کے اقاموں کا کیا مطلب ہے۔ عالیشان محل کے ساتھ بنی جھونپڑی کی چھت کیسے ٹپک جاتی ہے۔ ہم کسی بھی برائی کی نشاندھی کرکے سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا۔ ہمیں غلطی اور مستی کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ پولیس والوں نے بالکل غلط کیا بہت برا کیا اس کاروائی میں کوئی پروفیشنلزم نظر نہیں آیا اس بھیانک غلطی کی کسی بھی طرح کوئی بھی وضاحت دلیل یا صفائی نہیں دی جا سکتی لہکن ہم اپنی قوم کے ساتھ اس قوم کی بہن بیٹیوں بچوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ہمارا کردار کیا ہے کیا ہمارا ضمیر مطمعن ہے معاشرے پہ ملک پاکستان پہ ہمارا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ٹھیک کریں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ٹھیک ہوں ہمارے دست نگر فرشتے ہوں۔

بابا جیونا

Baba Jeevna

بابا جیونا  جن کا اصل نام نوید حسین ہے ایک سرکاری ملازم اور ایک بہترین لکھاری ہیں۔