اشرف صاحب اپنی بیوی کے سامنے اپنے خواب کا منظر کھینچنے والے تھے کہ اچانک مریم چلائی:
"امی!!!"
جمیلہ صاحبہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔
"یا اللہ!"وہ اپنے رب سے التجا کرنے لگیں۔ "اس لڑکی کی آواز کا کچھ کر۔ ۔ ۔ یہ تو ہمیں بدنام کرکے چھوڑے گی۔ سب محلے والے ہنستے ہیں۔ ۔ ۔ اِس لڑکی کی آوازتو پورے پاکستان میں گونجتی ہوگی۔ "
کمرے میں ایک چھپکلی کیاتشریف لائی، مریم کی چیخ نکل گئی۔ اشرف صاحب بیچارے کھانستے کھانستے کہنے لگے:
"بھئی دیکھو تو ہوا کیا ہے؟"
جمیلہ صاحبہ پراعتماد لہجے میں بولیں:
"کیا ہوا ہوگا؟کچھ نہیں!چھپکلی نے دستک دی ہوگی۔ اور آپ کی یہ بیٹی۔ ۔ ۔ خیر چھوڑیں۔ ۔ ۔ "
یہ کہنے کے بعد جمیلہ صاحبہ اپنی چار پائی سے اٹھیں اورپھر اپنی جوتی پہنتے ہوئے کہنے لگیں:
"آپ صبر کریں۔ میں چھپکلی کا قتل کرکے آؤں۔ ورنہ آپ کی یہ بیٹی مجھے نہ سونے دے گی نہ کسی کام کا چھوڑے گی۔ سارے محلے والوں کو اعلان کرے گی۔ ۔ ۔ "اس کے بعد جمیلہ صاحبہ نے مریم کی نقل اتارنی شروع کی۔ "'امی!امی!مجھے بچاؤ!چھپکلی گھس آئی ہے۔ 'یہ کہہ کہہ کر وہ میرا جینا حرام کردے گی۔ "
اشرف سوچ میں پڑ گئے۔ جمیلہ صاحبہ چھپکلی مارنے کے لیے جانے ہی والی تھیں کہ انہوں نے اشرف صاحب کا پُر تجسس چہرہ دیکھ لیا۔ فرمانے لگیں:
"آپ کو کیا ہوگیا؟"
اشرف صاحب خیالوں کی دنیا میں گم تھے، اچانک واپس اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوئے۔ "کچھ نہیں!کچھ نہیں!میں بس ایک بات سوچ رہا تھا۔ ۔ ۔ یہ لڑکی چھپکلی سے ڈر گئی۔ ۔ ۔ لیکن رات کو جب اسے لگا کوئی چور گھر میں گھس آیا ہے—اور دیکھو تو وہ چور میں نکلا، اب ذرا میرے جسم پر غور کرو، میرے قد اور جسامت کا بھی اسے لحاظ نہ رہا۔ سیدھا ڈنڈا اٹھایا اور اتنی ذور سے مارنے لگی کہ اوف توبہ!ایسے لگ رہا تھا جیسے فوجی بمباری کر رہے ہوں میرے سر پر۔ لیکن ابھی محترمہ کو اتنی سی چھپکلی نےڈرا دیا ہے۔ "
"چھوڑئیے نا!بچی ہے۔ "جمیلہ صاحبہ عرض کرنے لگیں۔
"کیا بچی ہے!"اشرف صاحب تیش میں آگئے اور ذور دار آواز میں مریم کو بلانے لگے۔ "مریم!مریم!"
مریم اپنے کمرے سے باہر نکلی اور بولی۔ "جی ابو!"
"کیا 'جی ابو!'، رات کو تو تم اتنی بہادر بن گئی تھی۔ ۔ ۔ "اشرف صاحب مریم کو ڈانٹنے لگے۔ "اب کیا ہوا۔ اِس چھپکلی پر بھی تو ڈنڈے برساؤ!کیوں؟کیا ہوا؟والد کو مارنا آسان ہے۔ ۔ ۔ چھکلی کو نہیں؟ہے نا؟اور یہ کیا تیز آواز میں چلاتی رہتی ہو۔ محلے والے کیا کہیں گے۔ شرم نہیں آتی تمہیں؟آئندہ میں نے تیز آواز سنی تو سزا کی مستحق ہوجاؤگی۔ ۔ ۔ "
اشرف صاحب تلخ لہجے میں بات کرتے رہے۔ مریم کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔ وہ چلاتی اور بولتی تو تیز آواز میں ہے، البتہ روتی ہے تو کسی کو بھی معلوم نہیں پڑتا۔ جمیلہ صاحبہ کو اب افسوس ہونے لگا۔ وہ مسلسل اس کی برائیاں بیان کر رہی تھیں، لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے شوہر اِس بیچاری کو اتنا ڈانٹ دیں گے۔ جب اشرف صاحب خاموش ہوئے تو جمیلہ صاحبہ مریم کو کمرے لے گئیں۔
"نہیں بیٹا!نہیں روتے!"جمیلہ صاحبہ مریم کے گالوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگیں۔ "تمہارے والد صاحب ابھی غصے میں تھے اس لیے یہ سب ہوا۔ بلکہ غلطی میری ہے، میری تمہاری آواز کے متعلق ان کے سامنے کچھ کہنے لگی، لہذا وہ مزید گرم ہوگئے۔ "
سارہ، جو اتنی دیر سے بیت الخلاء میں غسل کے واسطے بند تھی، باہر آئی تو مریم کو دیکھ کر اسے بھی رونا آگیا۔
"آپا!میری پیاری آپا!"وہ مریم کے قریب آکر بیٹھ گئی۔ "کیا ہوا؟مجھے بتاؤ۔ "
مریم نے روتے ہوئے جواب دیا۔ "کچھ نہیں۔ "
"امی آپ بتائیں۔ ۔ ۔ یہ کیوں رو رہی ہے؟"سارہ نے اپنی والدہ سے دریافت کیا۔
"وہ جو باہر بیٹھے ہیں نا، ان سے جاکر پوچھو۔ "جمیلہ صاحبہ نے جواب دیا۔
سارہ یہ بات سنتے ہی اپنے والد کے پاس جانے لگی، جمیلہ صاحبہ نےاسے روکا۔
"پاگل لڑکی!"جمیلہ صاحبہ نے اپنے ہاتھ سے اپنا سر پیٹا۔ "میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ جاؤ اور پوچھ آؤ۔ میرا مطلب تھا کہ ان کی وجہ سے یہ ہوا۔ انہوں نے آج اسے بہت ڈانٹا۔ "
"امی !"مریم اپنی والدہ کے مزید قریب آئی اور ان کے کندھےپر اپنا سر رکھ کر کہنے لگی۔ "مجھے آواز والی بات بالکل بری نہیں لگی۔ لیکن جب انہوں نے کہا کہ 'والد کو مارنا آسان ہے۔ 'تب مجھے بہت دکھ ہوا۔ "
گھر کی گھنٹی بجی۔ اشرف صاحب چلائے۔ "کون ہے؟"
"جی میں ڈاکیا ہوں۔ اشرف صاحب کے لیے خط آیا ہے۔ "باہر دستک دینے والے نے جواب دیا۔
اشرف صاحب نے خط موصول کیا اور پھر اسے مسلسل دیکھنے لگے۔ جمیلہ صاحبہ کمرے سے باہر نکلیں اور اشرف صاحب کے پاس خط دیکھ کر کہنے لگیں:
"یہ کیا؟"
"میری بہن کا خط ہے۔ کمال ہے۔ آج کے دور میں کون خط لکھتا ہے۔ "یہ کہہ کر اشرف صاحب ہنسنے لگے۔
"تو کھول کر پڑھیں نا!"
"تمہیں تو معلوم ہے۔ "اشرف صاحب نے درد بھرے لہجے میں کہا۔
ابھی وہ مزید کچھ کہتے اس سے پہلے جمیلہ صاحبہ فرمانے لگیں:
"جی، جی۔ مجھے سب معلوم ہے:آپ نے زندگی میں پہلی بار جب خط کھولا تو والد صاحب کے موت کی خبر پڑھنی پڑی۔ اُس دن سے آپ نے قریبی رشتے دارو ں کا خط پڑھنا چھوڑ دیا۔ کمال ہے۔ آپ تو دین دسے لگاؤ رکھتے ہیں۔ آپ کو نہیں معلوم کہ موت کا فیصلہ کرنے والی ذات تو اللہ کی ہے—آپ کے خط پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ "
"خیر فی الحال یہ بات چھوڑو۔ "اشرف صاحب نے کہا۔ "یہ خط تم کھول کر پڑھ لو۔ "
جمیلہ صاحبہ خط پڑھنے جارہی تھیں کہ اچانک ان کے شوہر نے کہا:
"ابھی چھوڑو۔ مجھے نیند آرہی ہے۔ شام کو پڑھنا۔ ابھی میں سورہا ہوں۔ "
"شکر اللہ کا!"جمیلہ صاحبہ دل ہی دل میں بولیں۔ "انہیں نیند تو آئی۔ اللہ کرے پھر سے خواب نہ آئے ورنہ یہ جاگ جائیں گے۔ "
اشرف صاحب سوگئے اور جمیلہ صاحبہ انہیں دیکھتی رہیں۔ مریم اور سارہ کمرے سے باہر نکلیں تو اس منظر کو دیکھ کر مسکرائیں۔ سارہ نے کہا:
"آپا!دیکھو تو دونوں میاں بیوی کو۔ ۔ ۔ کتنا پیار ہے دونوں میں۔ "
"لیکن میں تو پیار سے محروم ہوں۔ "مریم دکھی انداز میں کہنے لگی۔
"ایسی بات مت کریں آپا!"سارہ نے مریم کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ "میں ہوں نا آپ کے ساتھ۔ "
گھر میں خاموشی چھا گئی۔ اشرف صاحب کو دیکھتے دیکھتے جمیلہ صاحبہ کو بھی نیند آگئی۔ مریم اور سارہ بھی قیلولہ سے لطف اندوز ہونے لگیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے گھر میں کوئی ہے ہی نہیں۔ (جاری)