شام کے وقت جب جمیلہ صاحبہ اٹھیں تو انہوں نے اپنے شوہر کو جگانے کی کوشش کی۔ ویسے تو اشرف صاحب جلد اٹھ جاتے ہیں، لیکن اس وقت تو وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ تیز تیز خراٹے لے رہے تھے، جمیلہ صاحبہ نے انہیں بہت بار جگانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہیں اٹھے۔ خراٹوں کی رفتارمزید تیز ہونے لگی، ساتھ ساتھ شدت میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ اتنے تیز خراٹے سن کر مریم اور سارہ بھی اٹھ گئیں۔ جمیلہ صاحبہ فرمانے لگیں:
"چلو، ان خراٹوں نے میرا ایک کام تو آسان کردیا۔"
مریم اپنی والدہ کے قریب آکر کہنے لگی۔"امی سونے دیں ابو کو۔ اتنی دیر بعدنیند نصیب ہوئی ہے ان کو۔"
"چلو، ٹھیک ہے۔"جمیلہ صاحبہ یہ کہہ کر باورچی خانے جانے لگیں۔
ادھر سارہ کا فون بجنے لگا۔ وہ اپنے کمرے بھاگی۔ موبائل اٹھا کر اس نے "ہیلو " کہا۔
دوسری طرف ڈاکٹر امجد صاحب فرمانے لگے۔"ہاں بیٹی!میں امجد بول رہا ہوں۔"
سارہ بولی۔"ہاں، ڈاکٹر صاحب، فرمائیے۔"
ابھی ڈاکٹر صاحب کچھ کہتے اتنے میں جمیلہ صاحبہ نے سارہ سے فون چھین لیا۔ کہنے لگیں۔"مجھے بات کرنے دو۔"
"جی ڈاکٹر صاحب فرمائیے۔"جمیلہ صاحبہ نے ڈاکٹرصاحب سے گفتگو شروع کی۔
ڈاکٹر امجد فرمانے لگے۔"محترمہ!اپنے شوہر سے کہیے کہ ہمارے پاس آجائیں۔"
اشرف صاحب جاگ گئے۔ اٹھتے ہی کہنے لگے:
"سبحان اللہ!دیکھو تو:تین تین عورتیں ہیں اس گھر میں، لیکن حالت دیکھو! کسی کو زحمت نہیں ہوئی کہ مجھے اٹھا لے۔ الٹا فون پر مصروف ہیں سب لوگ۔ میں تو یہاں ایک "شو پیس" ہوں۔ کسی کو کوئی پروا ہی نہیں۔"
مریم بولی۔"لیکن ابو ہمیں لگا—"
"خاموش!"اشرف صاحب نے اسے کچھ مزید کہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔"میرے لیے چائے بنا کر لاؤ جلدی۔"
جمیلہ صاحبہ کہنے لگیں۔"جی ڈاکٹر صاحب کا فون ہے۔"
"تو مجھے دو۔"اشرف صاحب نے اپنے ہاتھ آگے کیے جیسے کوئی فقیر ہوں۔"ویسے بھی تمہارا غیر مردوں کے ساتھ باتیں کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔"
موبائل جب جمیلہ صاحبہ نے انکے حوالے کیا، تو انہوں نے اسے پکڑ کر کانوں سے لگا لیا۔ بولے۔"ڈاکٹر صاحب!کیا حال ہیں آپ کے؟ "
ڈاکٹر صاحب بولے۔"میاں!یہ تم نے میرا ڈائے لوگ چرا لیا۔ ایسا تو نہ کرو اب۔ برا لگتا ہے۔"
"میں بھی کتنا بیوقوف ہوں۔"اشرف صاحب ہنسنے لگے۔"آپ ڈاکٹر لوگ تو ماشاء اللہ—ماشاءاللہ خوب مال کما رہے ہیں۔ کماتے ہی جارہے ہیں۔ بیماریوں کو کبھی دعا دیا کیجیے۔ وہ نہ ہوں تو آپ کا کیا بنے گا؟ "
امجد صاحب نے یہ بات دل پر لی۔ جوابی حملہ کیا:"جی جناب!کیا کریں۔ آپ سرکاری لوگ دفتر میں عام لوگوں کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں کہ بیچارےہسپتال پہنچ جاتےہیں۔ رشوت کے دام بڑھیں گے تو بیماریاں بھی بڑھیں گی۔ میاں !بیماری نہیں، رشوت ہے دعا کی مستحق!"
مریم نے چائے لاکر والد صاحب کو پیش کی۔ ساتھ کچھ بسکُٹ بھی رکھے۔ اشرف صاحب نے چائے کا پہلا گھونٹ لیتے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا:
"میں یہ چائے نہیں پیوں گا۔ اسے لے جاؤ۔"
امجد صاحب فون کے ذریعے اشرف صاحب کو نصیحت دینے لگے۔"قبلہ!فی الوقت غصہ پی لیجیے۔"
یہ جملہ کہہ کر امجد صاحب اس طرح قہقہا لینے لگے کہ اشرف صاحب کے غصے میں مزید اضافہ ہوگیا۔
"یار تم سے تو بات کرنا ہی بے کار ہے۔"یہ کہہ کر اشرف صاحب نے کال کاٹ دی۔
جمیلہ صاحبہ بولیں۔"یہ کیا کیا آپ نے؟ وہ آپ کے لیے کچھ کہنے جارہے تھے۔"
"کچھ نہیں۔ یہ ڈاکٹر لوگ فضول میں وقت بربا د کرتے ہیں ہمارا۔ میں باہر جا رہا ہوں۔ تھوڑی چہل قدمی میرے لیے فی الحال اچھی ثابت ہوگی۔"
دوسری جانب، ایک دو گھنٹے بعد، ڈاکٹر امجد فون پر ہوئی گفتگو کی وجہ سے ہنس رہے تھے۔ ان کی اہلیہ ان سے پوچھنے لگیں :
"کیا ہوا؟ کیا دوسری شادی کرنے کا سوچ رہے ہیں؟ "
امجد صاحب خیالوں میں مگن جب واپس دنیا لوٹے، تو بولے۔"کیوں بھلا؟ میں کیوں کروں دوسری شادی؟ "
"ایسی مسکراہٹ آپ نے تب دی جب ہمارا رشتہ طےہوا تھا۔ لگتا ہے کسی اور سے بھی آپ کا رشتہ طےہوا ہے۔"امجد صاحب کی اہلیہ کہنے لگیں۔
دروازے پر کسی نے دستک دی۔
"لو جی۔ لڑکی والے آگئے۔"امجد صاحب نے طنز یہ کہا۔
دروازے پر آیا آدمی مسلسل دستک دیے جارہا تھا۔ امجد صاحب کہنے لگے۔"بھائی آرہا ہوں۔ آرہا ہوں۔"
دروازہ کھلا تو معلوم پڑا کہ اشرف صاحب تشریف لائے ہیں۔
امجد صاحب نے دروازےپر اپنے ہاتھ جما کر کہا۔"اشرف صاحب!آپ؟ "
"جی معزرت!فون پر کچھ فضول بک گیا میں۔"اشرف صاحب شرمندگی سے بھرےلہجے میں گفتگو کرنے لگے۔"مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔"
"اشرف صاحب!اندر آئیے۔ ہمارے ساتھ بیٹھیے۔"ڈاکٹر صاحب نے اشرف صاحب کو دعوت دی۔
امجد صاحب اشرف صاحب کو اپنے کمرے لے گئے۔ اپنی اہلیہ سے کہا کہ"ان کے لیے چائے بنا کر لاؤ۔"پھر جب دونوں ایک ساتھ بیٹھے، تو امجد صاحب نے فرمایا:
"جی دیکھیں! مجھے آپ کی کوئی بات بری نہیں لگی۔ آپ کی حالت سے میں خوب واقف ہوں۔"
اشرف صاحب یہاں وہاں ارد گرد اپنی نظریں پھیرنے لگے۔ اچانک بولے:
"ڈاکٹر صاحب!آپ واقف نہیں ہیں۔ مجھے بہت دنوں سے ایک خواب آرہا ہے۔ مسلسل، بار بار۔ ایک ہی خواب ہے جو مجھے ستائے جارہا ہے۔"
"مجھے بتائیے۔"امجد صاحب نے دوستانہ لہجہ اختیار کیا۔"میں شاید آپ کی مدد کروں۔"
اتنے میں امجد صاحب کی اہلیہ چائے لائیں۔ امجد صاحب بولے:
"اشرف صاحب!یہ چائے تو آپ کو پینی ہی پڑے گی۔ چاہے آپ کو پسند ہو یا نہ ہو۔ میں اتنے سالوں سے یہ ظلم برداشت کر رہا ہوں۔ آج آپ کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔"
امجد صاحب کی اہلیہ نے انہیں گال پر ہلکا سا —مذاق میں —تھپڑمارا اور کہا۔"ظلم کا جواب ظلم سے دینے کے قائل ہیں ہم۔"
پھر دونوں میاں بیوی مسکرائے۔ اشرف صاحب یہ دیکھ کر حیران ہوئے۔ جب اہلیہ صاحبہ گئیں تب اشرف صاحب نے امجد صاحب سےکہا:
"ایسے سر پرنہیں چڑھاتے ان عورتوں کو۔ ورنہ —"
امجد صاحب نے انہیں بات مکمل کرنے نہیں دی۔ بولے۔"محترم!یہ سر پر چڑھانا ہے؟ اپنی بیوی سے عزت سے بات کرنا۔ مذاق کرنا۔ اسے سر پر چڑھانا کہتے ہیں آپ؟ خیر، آپ کو یہ چائے پینی ہی پڑے گی۔"
"کیوں؟ "اشرف صاحب پوچھنے لگے۔
"آپ کی بیٹی شاید وقت برباد کرتی ہوگی اپناآپ کے لیے چائے بنا کر۔ میری اہلیہ وقت نہیں برباد کرتیں اپنا۔ انہوں نے چائے بنائی ہے۔ تو آپ کو پینی پڑے گی۔"
اشرف صاحب نے چائے کا کپ پکڑا، ایک گھونٹ لینے کے بعد بولنے لگے۔"واہ!کمال کی چائے ہے۔ کاش ہمارے گھر کی عورتیں ایسی چائے بنا تیں۔"
امجد صاحب بولے۔"قبلہ!اگر آپ حوصلہ بڑھائیں گے، تو ذائقہ بھی آئے گا۔"
اشرف صاحب چائے کا مزہ لینے لگے۔ کبھی کبھی تو آنکھیں بند کر کے چائے کی تعریف ان لفظوں میں کرتے۔"گوڈ، ویری گوڈ۔"