وہ دل کو توڑ گیا بے شعور ایسا تھا
لبوں پہ آ نہیں پایا، قصور ایسا تھا
گُلاب ہاتھ سے گر کر زمین بوس ہوا
نظر کا زاویہ سچ مُچ کے طُور ایسا تھا
اندھیرے موندھ کے آنکھیں دیٌے بُجھانے لگے
کہ میرے چاروں طرف ایک نُور ایسا تھا
وہ جھوٹ بول کے سُقراطِ عصر بن بھی چُکا
اُسے بھی اپنی زباں پر عبور ایسا تھا
گُناہگارِ محبت سے رابطہ نہ رہا
مرا مزاج بھی جنت کی حُور ایسا تھا
بس اُس نے ہاتھ کو چھو کر کہا، خدا حافظ
وجود ڈول گیا تھا، سرور ایسا تھا
مری صداسے بھی ناآشنا رہا وہ بتول!
وہ میرے دل کا مکیں مجھ سے دور ایسا تھا