میں موت کے بعد چند روز پہلے تک بھی اس کی عزت اور کبھی کبھی اسے یاد بھی کرتا رہا لیکن چند روز پہلے اس مرحوم کا سارا بھرم چکنا چور ہو گیا۔ فاروق لغاری مرحوم سے اچھا تعلق تھا جس کی بنیادی وجہ کتب بینی کا مشترکہ شوق تھا۔ مرحوم ان دنوں صدر پاکستان تھے او ممنون حسین ٹائپ نہیں 58 ٹو بی سے مسلح طاقتور صدر جس نے بعد ازاں اس محسن بے نظیر کو بھی فارغ کر دیا جس نے انہیں صدر بنوایا اور ’’فاروق بھائی‘‘ کہا کرتی تھیں۔ تب ملک معراج خالد مرحوم و مغفور، نگران وزیر اعظم تھے۔ ان دنوں مجھ پر ’’احتساب‘‘ کا جنون طاری تھا اور میں بے تکان اس موضوع پر لکھ رہا تھا۔ لاجک یہ تھی کہ کڑے احتساب کے بغیر ’’انتخاب‘‘ بیہودہ ایکسرسائز کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ انہی دنوں نامورسنگر کمپوزر سلمان میرے پاس آئے تو شاید حفیظ اللہ نیازی بھی ان کے ساتھ تھے۔ فرمائش یہ تھی کہ ’’احتساب‘‘ کے حوالہ سے انہیں کوئی گیت لکھ دوں جو میں نے لکھ دیا جس کا مکھڑا تھاانتخاب نہیں احتساب، ورنہ خونی انقلاب سلمان نے عمدگی سے کمپوز کر کے خوبصورتی سے یہ گیت ریکارڈ کرایا جو مجھے بھی بہت پسند آیا لیکن پھر یہ گیت ’’غائب‘‘ ہو گیا تو میں نے سوچا کہ سلمان ڈر گیا ہے یا اس نے کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ غصہ تو مجھے بہت تھا لیکن صبر کے سوا کوئی صورت نہیں تھی البتہ سلمان کے بارے میری رائے تبدیل ہو گئی اور پھر برسوں بیت گئے۔ پچھلے دنوں عید سے چند دن پہلے کسی پرائیویٹ نجی ٹی وی چینل پر کسی خاتون اینکر کے ساتھ گفتگو کے دوران سلمان نے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا جو میں نے خود تو نہیں سنا لیکن بیشمار لوگوں نے فون پر مجھے اس بارے میں بتایا جس کے بعد سلمان پر پیار آیا اور فاروق لغاری کا بھرم ٹوٹ گیا۔ سلمان نے بتایا کہ اس نے صدر مملکت فاروق لغاری سے وقت لیکر اس شخص کو یہ گیت سنایا جسے سننے کے بعد اس نے منافقانہ اگر مگر چونکہ چنانچہ والی گول مول گفتگو کے بعد سلمان کو رخصت کیا اور پھر تین سال کے لئے سلمان کو پی ٹی وی پر بین کر دیا۔ یاد رہے کہ اس وقت نجی ٹی وی چینلز کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پی ٹی وی کی مکمل اجارہ داری تھی۔ یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ سلمان کو کتنا دکھ اٹھانا اور نقصان برداشت کرنا پڑا ہوگا۔ سلمان صدر مملکت کے ساتھ رابطہ کرنے سے پہلے مجھ سے مشورہ کر لیتا تو میں سمجھا دیتا کہ یہ طبقہ تو پیداوار ہی ’’سٹیٹس کو‘‘ کی ہے۔ دکھ مجھے اس بات کا ہے کہ پاکباز فاروق لغاری ایک نوجوان پڑھے لکھے فنکار کے کیرئیر سے کھیل گیا حالانکہ چاہتا تو سمجھا بجھا کر سلمان کو اس ’’حرکت‘‘ سے روک سکتا تھا کہ سلمان نرا سنگر ہی نہیں ڈاکٹر بھی ہے یازیادہ سے زیادہ یہ گیت بین کر دیتا، پورے کے پورے سلمان کو بین کرنا اور وہ بھی تین سال کے لئے ایک غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ فیصلہ تھا۔ عشروں بعد اصل کہانی معلوم ہوئی تو سلمان کے بارے میں غصہ اور فاروق لغاری کے لئے جو عزت دل میں تھی، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دل سے جاتی رہی ہے۔ سبق اس کہانی کا یہ کہ چند مخصوص طبقات عوام کے ہمدرد یا دوست ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ فاروق لغاری جیسوں کا تو فیول یا چارہ ہی عوام ہیں۔ اک اور احمقانہ سا خیال یہ ہے کہ اگر اس وقت ’’ویو‘‘ بن جاتی، احتساب کے لئے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے تو شاید پاکستان کے کئی قیمتی سال ضائع ہونے سے بچ جاتے لیکن قدرت کا اپنا نظام اور اپنے فیصلے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے میرا تکیہ کلام ہی یہ رہا کہ ’’چند خاندان یا پورا پاکستان بچا لو‘‘۔ اللہ کرے حالیہ احتساب ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے تو بڑی بات ہے، ’’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے‘‘۔ آخر یہ ایک اہم انکشاف اور وہ یہ کہ عید قرباں پر قربانی کے جانوروں کی آلائشیں ٹھکانے نہ لگانے کے حوالہ سے ن لیگ کی ’’عوامی اور مقامی‘‘ قیادت نے انتہائی منفی کردار ادا کیا ہے۔ ن لیگی میئر سے لیکر ان کی ٹیم نے نچلی ترین سطح پر حکومت کو بدنام کرنے کے لئے مجرمانہ لیکن سوچی سمجھی غفلت سے کام لیا ہے تو پنجاب حکومت کو حد درجہ احتیاط سے کام لینا ہوگا ورنہ جن بیشمار لوگوں کا نان نفقہ ن لیگ سے وابستہ ہے وہ گند اٹھانے کی بجائے قدم قدم پر قسم قسم کا گند ڈالیں گے کہ اب ان کے پاس سروائیول کے لئے اور کچھ رہا ہی نہیں۔ چلتے چلتے یہ اطلاع بھی شیئر کرتا چلوں کہ اس انکشاف کا کریڈٹ بھی ان لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے لاہور کے مختلف مقامات، محلوں اور آبادیوں سے فون کر کے مجھے مطلع فرمایا اور ان میں کچھ ’’ان سائیڈرز ‘‘ بھی شامل تھے۔ پی ٹی آئی کی بالخصوص پنجاب حکومت یاد رکھے کہ انہیں جگہ جگہ ان باقیات کی واردات کا سامنا ہوگا!