19 رمضان المبارک سن 40 ہجری۔ حضرت علیؓ کوفے کی جامع مسجد میں نماز فجر کی امامت فرما رہے تھے جب ایک خارجی عبد الرحمن بن ملجم نے زہر سے بجھے ہوئے چاقو سے آپ ؓ پر حملہ کر دیا، آپ ؓ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور دو دن بعد آپ ؓ کی شہادت ہو گئی۔ حسن ابن علی ؓ خلیفہ چُن لئے گئے، منتخب ہونے کے بعد آپ نے اسی کوفے کی مسجد میں خطبہ دیا، قیس ابن سعد پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ امام حسن ؓ کے خلیفہ بننے کی خبر جب امیر معاویہ ؓ تک پہنچی تو انہوں نے آپ ؓ کی خلافت ماننے سے انکار کر دیا اور لڑنے کا فیصلہ کیا، اس موقع پر ان دونوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا جس میں امام حسن ؓ نے امیر معاویہ ؓ کو بیعت لینے کی دعوت دی، امام ؓ نے ان خطوط میں وہ تمام دلائل بھی دئیے جن کی بنیاد پر لوگوں نے آپ ؓ کو خلیفہ منتخب کیا تھا، آپ ؓ نے لکھا ’’اگر انصار کے مقابلے میں قریش اس بنیاد پر خلافت کے دعوے دار ہوسکتے ہیں کہ رسول خداﷺ قریش سے تھے تو پھر خانوادہ رسول ﷺ تو ہر لحاظ سے اللہ کے نبی ﷺ کے سب سے قریب تر تھا اور امت کی راہبری کے لئے کہیں زیادہ اہل‘‘۔
امیر معاویہ ؓ نے ان خطوط کا جواب دیا جس میں انہوں نے اپنے اہل ہونے کے حوالے سے دلائل دئیے، بالآخر خط و کتابت بے نتیجہ رہی اور نوبت جنگ تک جا پہنچی، امیر معاویہ ؓ نے شام سے لے کر موصل تک اپنے کمانڈروں کو طلب کر لیا اور ساٹھ ہزار کی سپاہ تیار کر لی، جواب میں امام حسنؓ نے عبید اللہ ابن عباس کی سربراہی میں بارہ ہزار کی فوج کو حکم دیا کہ وہ معاویہ ؓ کی پیش قدمی روکیں تاکہ اس دوران امام حسنؓ اپنی باقی کی فوج کے ساتھ شامل ہو جائیں، امام ؓ نے مدائن میں خطبہ دیا جس میں آپ ؓ نے فرمایا کہ وہ کسی مسلمان کے خلاف دل میں نفرت نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ کسی کا برا چاہتے ہیں اور نہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، آپ ؓ کے اس خطبے کو کچھ لوگوں نے کمزوری جانا، ایک خارجی نے خنجر سے آپ پر وار کیا، آپ ؓ زخمی ہو گئے، آپؓ کے زخمی ہونے کی خبر سے سپاہ میں بے دلی پھیل گئی، امیر معاویہ ؓ نے موقع کی نزاکت بھانپ کر دوبارہ مذاکرات کا عندیہ دیا اور پھر امام حسن ؓ اور امیر معاویہؓ کے درمیان وہ تاریخی معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں آپ ؓنے خلافت چھوڑ دی مگر اس شرط کے ساتھ کہ امیرمعاویہ ؓ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کریں گے اور خلافت امام حسن ؓ کو واپس ملے گی (بعض تاریخی حوالوں کے مطابق خلافت کا فیصلہ مسلمانوں کی شوریٰ کرے گی)۔ حضرت امام حسنؓ کا عرصہ خلافت چھ ماہ تھا۔
امیر معاویہ ؓ تقریباً بائیس برس تک خلیفہ رہے، آپؓ کی خلافت کے دوران ہی امام حسنؓ کا انتقال ہو گیا، امیر معاویہؓ نے اپنی وفات سے قبل یزید کو خلیفہ نامزد کیا، بعض مسلم اسکالرز کی نظر میں یہ اُس معاہدے کی خلاف ورزی تھی جو آپ ؓ نے امام حسن ؓ سے کیا تھا جس کے تحت وہ کسی کو نامزد کرنے کے مجاز نہیں تھے، یزید کی خلافت کو یقینی بنانے کے لئے امیر معاویہ ؓ نے مدینہ کے گورنر مروان بن الحکم کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ اہل مدینہ سے یزید کی خلافت کی حمایت یقینی بنائے، مروان نے کوشش کی مگر ناکام رہا، دراصل مدینے میں اُس وقت پانچ سرکردہ شخصیات تھیں جنہوں نے یزید کو ولی عہد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، ان میں حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ، حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ، حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ اور امام عالی مقام حضرت حسین ؓ شامل تھے، بعد ازاں خود امیر معاویہ ؓ ان شخصیات کو منانے مدینے آئے مگر بات نہیں بنی۔ امیر معاویہ ؓ نے اپنی وفات کے وقت یزید کو وصیت کی کہ ’’حضرت حسین ؓ سے اعلیٰ برتاؤ کرنا، انہیں عزت و تکریم دینا، انہیں آزادی دینا وہ زمین پر جہاں جانا چاہیں جائیں، انہیں کو ئی تکلیف نہ پہنچے، خبردار میرے بیٹے کہیں ایسا نہ ہو کہ روز قیامت جب تو خدا کے آگے پیش ہو توتمہارے ہاتھوں پر حسینؓ کا خون ہو۔ ‘‘ باقی تاریخ ہے۔
امام عالی مقام ؓ جب مدینے سے کوفے کی جانب چلے تھے تو دراصل وہ اپنے گھر جا رہے تھے، کوفہ وہ جگہ تھی جسے حضرت علی ؓ نے اپنادارالخلافہ بنایا تھا اور جہاں علی المرتضیٰ ؓ کی شہادت ہوئی تھی، کوفہ ہی وہ شہر تھا جہاں آپ ؓ کے بھائی امام حسن ؓ خلیفہ منتخب ہوئے تھے اور یہ کوفی ہی تھے جنہوں نے خطوط لکھ کر امام حسین ؓ کو دعوت دی تھی کہ وہ آئیں اور یزید کی خلافت کا خاتمہ کریں۔ امام حسین ؓ کے اس اقدام کو مولانا مودودی نے ایک جملے میں سمو کر پورے مسئلہ خلافت کے دریا کو گویا کوزے میں بند کر دیا ہے، مولانا لکھتے ہیں ’’یزید کی قائم شدہ امارت کے مقابلے میں جب حضرت حسین ؓ اٹھے تو بکثرت صحابہ ؓ زند ہ تھے اور قفہائے تابعین ؓ کا تو قریب قریب سارا گروہ ہی موجود تھا مگر ہماری نگاہ سے کسی صحابی یا تابعی کا یہ قول نہیں گزرا کہ حضرت حسین ؓ ایک فعل حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے تھے۔ جن جن لوگوں نے بھی حضر ت ممدوح کو روکا تھایہ کہہ کر روکا تھا کہ اہل عراق قابل اعتماد نہیں ہیں اور اس اقدام سے اپنے آپ کو خطرے میں ڈا ل دیں گے۔ ‘‘ مگر امام حسین ؓ یزید کی غیر قانونی خلافت کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے اور یہی واقعہ کربلا کا بنیادی سبق ہے کہ امام عالی مقام ؓ نے حق کی راہ اپنائی اور غیر قانونی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، کربلا کے میدا ن میں جب شمر نے انہیں کہا کہ وہ یزید کی بیعت کریں یا مرنے کے لئے تیار ہو جائیںتو نواسہ رسول ﷺ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا، یزید کی فوج نے خانوادہ رسول ﷺ کا قتل عام کیا اور یوں یزید کا یہ ظلم عظیم اُس کی خلافت کے باطل ہونے کاخود اپنے آپ میں ایک علیحدہ ثبوت ہے۔ کربلا میں یزید کی فوج جیت گئی، تاریخ میں امام حسین ؓ امر ہو گئے۔
واقعہ کربلا کے بعد فوری طور پر اس کا رد عمل مکہ اور مدینے میں ہوا، جب یہ خبر حجاز میں پہنچی تو وہاں کے لوگ بپھر گئے، انہیں قابو میں کرنے کے لئے یزید نے مکے اور مدینے پر بھی چڑھائی کی، یزیدی فوج نے مکے پر منجنیقوں کے ذریعے آگ پھینکی، ایک آتشیں پتھر خانہ کعبہ میں بھی گرا جس سے کعبے میں آگ لگ گئی اور اُس مین ڈھے کے سینگ بھی جل گئے جو حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ قربان کیا تھا، اسے واقعہ حرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ بربریت کی ایک اور تاریخ تھی جو یزید نے رقم کی، اس واقعے کے دوران (یا فوری بعد) یزید کی موت واقع ہو گئی۔
بعدازاں خون حسینؓ کے انتقام کیلئے بنائے جانے والے لشکر کی قیادت مختار ثقفی کے ہاتھ میں آئی جس نے پھر چُن چُن کر اُن تمام لوگوں کو اذیت ناک موت سے دو چار کیا جو خانوادہ رسول ﷺ کے قتل میں ملوث تھے۔
10 محرم سن 61 ہجری کو نواسہ رسول ﷺ اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ یزید کی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے، کربلا کے میدان میں اُس وقت آپ ؓکے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ حق کا ساتھ دینا اور باطل کے سامنے ڈٹ جانا اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو حسین ابن علی ؓ کے ساتھ اہل کوفہ اُ س وقت کھڑے ہوتے۔ عشق کا دعویٰ آسان ہے، نبھانا مشکل ہے!