گزشتہ کل کا کالم قارئین کو اچھا تو لگا لیکن بہت سے مہربانوں نے اسے ’’ڈرائونا‘‘ بھی قرار دیا۔ میں اس سے متفق تو ہرگز نہیں لیکن اس رائے کا احترام مجھ پر واجب ہے۔ اسی لئے آج موت سے بالکل برعکس ’’مسکراہٹ‘‘ کو بطور موضوع منتخب کیاہے۔ مسکراہٹ اہل مغرب کی عادت جبکہ "Have a good day" کہنا تقریباً ان کا تکیہ کلام ہے۔ ہم اہل مشرق اس سلسلے میں ذرا کنجوس ہیں کیونکہ عموماً ہمارے حالات ہی ہمیں اس ’’عیاشی‘‘ کی اجازت نہیں دیتے کہ جس بیچارے کے اعصاب پرگھر کاکرایہ، بچے کی فیسں، ماں کا علاج سوارہو اس نے خاک مسکرانا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان مسکراہٹ کاتبادلہ تو یونہی فحاشی کےقریب سمجھا جاتا ہے لیکن بنیادی طورپر ہمارے ہاں معیشت ہی مسکراہٹ کی قاتل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق ہماری لوئر مڈل اورمڈل کلاسز میں میاں بیوی کے درمیان چخ چخ اور چیخم دھاڑ کی اکثر وجہ معاشی دبائو ہی ہوتا ہے۔ شوہر کہتا ہے چادر دیکھ کر پائوں پھیلائو۔ بیوی کہتی ہے چادر ہی موجود نہیں تومیں کیا کروں؟ آٹے دال کے بھائو سے شروع ہونے والی تکرار کبھی کبھی تو طلاق تک بھی جا پہنچتی ہے۔ لیکن آج کا موضوع صرف مسکراہٹ ہے جس پر ’’لاگت‘‘ تو صفرہے لیکن منافع لامحدود کیونکہ ایک مخلصانہ مسکراہٹ کم از کم دو انسانوں کے اعصاب کا تنائو ختم کرکے انہیں پرسکون کرسکتی ہے۔ مسکراہٹ کے بارے میں کسی ماہر نفسیات نے یہ لکھا ہے کہ مسکراتے وقت انسانی چہرے اور ہونٹوں پر جو CURVE پیدا ہوتا ہے وہ بہت سے ٹیڑھے پن کو سیدھاکردیتا ہے۔ محبت اور خلوص بھری پرجوش مسکراہٹ سے برف جیسے رویے بھی پگھل سکتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مسکراہٹ کی زبان پوری دنیا میں یکساں طور پر سمجھی اور پسند کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ تو طلوع سحر کوقدرت کی مسکراہٹ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ طلوع سحر قدرت کی طرف سے سرگوشی میں کہی گئی ’’گڈمارننگ‘‘ کی ہی ایک صورت ہے۔ مسکراہٹ کوچہرے کا ’’لائٹنگ سسٹم‘‘ اور دل کا ’’ہیٹنگ سسٹم‘‘ بھی کہا جاتا ہے، انسان کو چاہئے کہ جب کسی دوسرے انسان کو مسکراہٹ سے محروم دیکھے اسے اپنی مسکراہٹ ادھار دے دے اور یقین رکھے کہ یہ ادھار اسے فوری طور پر واپس بھی مل جائے گا۔ مسکراہٹ سے محروم چہروں کی کامیابی اکثر معدوم سمجھی جاتی ہے۔ سورج کی گرمائش جو کام پھولوں کے کھلنے اور پھلوں کےپکنے میں کرتی ہے، مسکراہٹ کی تپش بنی نوع انسان کےلئے وہی کام کرتی ہے۔ مسکراہٹ کی ایک خوبی یاخاصیت یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی ’’فیس ویلیو‘‘ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بوسے کے بعد مسکراہٹ ہی انسانی ہونٹوں کا سب سے اہم اور خوبصورت فریضہ ہے۔ مسکراہٹ شگوفہ اور قہقہہ اس کا پھول ہے۔ مسکراہٹ کے بغیر مہذب لوگ خود کو بے لباس سمجھتے ہیں یا کم از کم اتناضرور کہ ان کا لباس ادھورا رہ گیا ہے۔ شکل بگاڑنے، منہ بنانے میں 43 مسلز کو محنت کرنا پڑتی ہے جبکہ مسکراتے وقت صرف 17 مسلز کو کام کرنا پڑتاہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا کا کوئی پیمانہ مسکراہٹ کی پیمائش نہیں کرسکتا۔ چند لمحوں کی مسکراہٹ عرصہ تک زندہ رہتی ہے۔ مسکراہٹ مشکل ترین سچویشن کا حل، بڑے سے بڑے راز کاپردہ اور گہرے سے گہرے گھائو کا علاج ہے۔ جینوئن مسکراہٹ کے ہتھیارسے کچھ بھی فتح کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسا قفل نہیں جو مسکراہٹ کی چابی سے کھولانہ جاسکے اور اگر مونا لیزا کی تصویری مسکراہٹ صدیوں پرمحیط ہوسکتی ہے تو ذرا سوچئے زندہ مسکراہٹ کب تک زندہ رہ سکتی ہے۔ مسکراہٹ اردو ادب کی حسین تر غزل کے خوب صورت ترین شعر کامصرع ہے جوشعورسےرخصت ہو بھی جائے تو لاشعور میں سکونت اختیار کرلیتاہے۔ مسکراہٹ وہاں تک بھی پہنچ سکتی ہے جہاں تک میں اور آپ خود نہیں پہنچ سکتے۔ مسکراہٹ اک ایسے پاسپورٹ کی مانند ہے جس کے لئے کوئی ویزہ درکار نہیں۔ یہاں مجھے اپنے صوفی تبسم سے لے کر نیویارک کے تبسم بٹ تک کے ساتھ ساتھ یہ لازوال غزل بھی یاد آرہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’اک بارمسکرادو‘‘اور سب سے بڑھ کریہ فرمان عالیشان کہ کسی مسلمان کااپنے مسلمان بھائی کومسکراکر دیکھنا بھی صدقہ ہے سو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’اک بارمسکرا دو، اک بارمسکرادو‘‘