تقریباً چاردن پہلے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے ایک بیان، تبصرہ کی سرخی یہ تھی۔ ’’نجی ہسپتالوں میں موت کا کاروبار بند کیا جائے‘‘دو ذیلی سرخیاں معاملات کوسمجھنے میں مزید مددگارہوں گی۔ ’’کوئی نظام نہیں۔ ہمیں حکومت کے کام کرنے پڑ رہے ہیں۔ نجی ہسپتالوں میں کوئی پوچھنے والا نہیں: ریمارکس۔ ہسپتال کے مالکان اور ڈاکٹرز طلب‘‘قارئین!یہ سارا قصہ ایک مہنگے نجی ہسپتال میں زچہ کی ہلاکت سے شروع ہوا جس کی تفصیل پورا کالم کھا جائے گی۔ اس لئے تھوڑے لکھے کوبوہتا سمجھیں کیونکہ نجی ہسپتالوں کی پرفارمنس سے متاثر بلکہ انسپائرہو کرمیں دراصل نجی یعنی پرائیویٹ سکولوں کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں جنہوں نے والدین کی زندگیاں عذاب نہیں عذابوں میں مبتلا کررکھی ہیں۔ بقول عثمان بھٹہ ’’پاکستان میں رشوت کی ایک اہم وجہ یہ پرائیویٹ سکولز ہیں کیونکہ پڑھے لکھے والدین ہر بات پر کومپرومائزکرسکتے ہیں بچوں کی تعلیم پر نہیں سو علم حاصل کرو چاہے رشوت تک بھی جانا پڑے۔ ‘‘پرائیویٹ تعلیمی ادارے جس طرح ٹکسالوں میں تبدیل ہوچکے ہیں میں ان کی تفصیلات سے توواقف نہیں صرف ان وارداتوں پر ہی اکتفا کروں گا جو زبان زدِ عام ہیں اور کوئی بھی ماں یا باپ ان معروضات کی تائید و تصدیق کرسکتا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے کس طرح عقوبت خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ والدین کی خاصی معقول تعداد کاتعلق تنخواہ دارطبقہ سے ہے۔ بھلے وہ سرکاری ملازم ہوں یا دیگر نیم و غیرسرکاری اداروں میں کام کررہے ہوں اور یہی وہ مظلوم بھی ہیں جنہیں بچوں کوبہتر اداروں میں تعلیم دلوانے کا شوق اورشعور بھی ہے۔ یہی وہ مجبور ماں باپ ہیں جو سرکاری سکولوں کی مکمل تباہی، بربادی، زبوں حالی کے سبب پرائیویٹ سکولوں کارخ کرنے پرمجبور ہیں۔ مہذب دنیا کا شاید ہی کوئی کاروبار (اس نوعیت کا) ایسا ہوجہاں منافع کے حوالے سے ایسی مادر پدر آزادی ہو جیسی ہمارے ہاں اس شعبہ میں ہے جبکہ پاکستان میں صحت اور تعلیم کا شمار منافع بخش ترین ’’انڈسٹریز‘‘ میں ہوتاہے۔ موثر مانیٹرنگ سے ماورا بے لگام اور ابنارمل منافع کے ان ’’اڈوں‘‘ پر دکھاوے کا کوئی کنٹرول ہو تو ہو، حقیقت میں کچھ نہیں اورعملاً یہ سب خودمختار ہیں، من مانی ان کا شعار۔ اس مادرپدر آزادی کی ایک بنیادی وجہ یہ کہ بیشتر بااثر خاندان ہیروئن سے زیادہ منافع بخش اس کاروبار میں ملوث ہیں اور کچھ لوگ اس کاروبار میں آنے کے بعد بااثر ہوچکے ہیں۔ آج سے چند برس پہلے تک پوسٹ گریجوایشن کی فی سمیسٹر جتنی فیس تھی آج کل ’’پلے گروپ‘‘ اور ’’نرسری‘‘ کے بچوں کی فیس اس سے کئی گنا زیادہ ہوچکی ہے کیونکہ یہ ادارے مل جل کر مافیاز کا روپ دھار چکے ہیں۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہم ان مستثنیات کی بات نہیں کررہے جو مشنری جذبہ کےساتھ یہ کام کر رہے ہیں۔ ’’قانونی لوٹ مار‘‘ کے اس کاروبار کی ایسی بے شمار جہتیں ہیں جن کا تفصیلی بیان ممکن نہیں۔ صرف چند ایک کی نشاندہی کافی سمجھیں کہ ایک آدھ دانے کو چکھ کر ہی پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ ایڈمشن کا مرحلہ ہی لاکھوں میں پڑتا ہے کہ ایڈمشن فیس کے ساتھ اور بڑی پخیں وابستہ ہیں۔ پھرہرسمیسٹر کی من مانی فیس، کتابیں، تبدیل ہوتی ہوئی یونیفارمز، جوتے اورسٹیشنری جو مخصوص دکانوں کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں۔ دیگر اللے تللے اور لوازمات ان کے علاوہ۔ انتہا یہ کہ سوئمنگ پول موجود نہیں لیکن بچہ سوئمنگ کاسٹیوم خریدنے پر مجبور اور سوئمنگ ہوگی ان پلاسٹک کے ٹبوں میں جن کے اندر ہوا بھر کر پھلانے اورپانی ڈالنے کے بعد بچوں کو ان میں ’’سوئمنگ‘‘ سکھائی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین کی اکثریت نے سڑکوںکے کنارے یہ ’’ریڈی میڈ سوئمنگ پول‘‘ بکتے دیکھے ہوں گے۔ سونے پرسہاگہ یہ کہ ایسے اکثر سکولوں میں پڑھائی اتنی ناقص ہوتی ہے کہ بچے ’’اکیڈیمیز‘‘‘ جوائن کرنے پرمجبور ہوتے ہیں یا گھروں پر ٹیوٹرز رکھے جاتے ہیں جو مختلف مضامین کے لئے مختلف فیس چارج کرتے ہیں۔ ماشا اللہ ’’ہوم ورک‘‘ سکول سے ملنے کی بجائے ویب سائٹس سے ڈائون لوڈ کئے جاتے ہیں جن کے لئے مہنگا ایکوپمنٹ یعنی لیپ ٹاپ وغیرہ علیحدہ۔ گرمیوں سردیوں کی چھٹیاں تقریباً تین ماہ پرمحیط ہوتی ہیں جن کی فیسیں ’’ایڈوانس‘‘ وصول کی جاتی ہیں جو کروڑوں میں ہوتی ہوں گی تو ذراسوچیں ان کا منافع کہاں جا پہنچتا ہوگا اور کچھ ادارے تو ایسے ’’بیگارکیمپ‘‘ ہیں جوچھٹیوں کے دوران سٹاف کو تنخواہ بھی نہیں دیتے۔ یہ تو ہیں ملکی تعلیمی منظر نامہ کی چند جھلکیاں۔ مجھے یقین ہے یقیناً رشوت کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کیونکہ ماں باپ روٹی، کپڑا، مکان، علاج، بجلی، گیس وغیرہ کے اخراجات تو پیٹ کاٹ کر بھی کم کرلیتے ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچوں کے مستقبل پر کومپرومائز تو کوئی فرشتہ ہی کرسکتا ہے لیکن کیا کریں، جہاں ہاتھ رکھیں زخم ہے۔ کوئی کہاں کہاں مرہم لگائے؟ پورا نظام دیوار خستگی ہے۔ دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگامیں گر پڑوں گا دیکھ سہارا نہ دے مجھے۔