یہ عجلت میں کیا گیا ایک ایسا بھونڈا فیصلہ ہے جس پر پنجاب حکومت کو ازسرنو غور کرنا ہوگا اور اس لئے بھی کہ اوورسیز پاکستانی تو پی ٹی آئی کی طاقت اور کئی معنوں میں اس کی ہی نہیں، پاکستانی معیشت کی بھی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ پہلے یہ خبر پڑھ لیں تاکہ آپ جان سکیں کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں اور میری تکلیف کیا ہے۔ ’’اوورسیز پاکستانیز پنجاب کا دفتر بند کردیا گیا‘‘ ’’جی او آر ون میں قائم اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب کا دفتر بند کردیا گیا ا ور کمیشن کے ملازمین کو ایس اینڈ جی اے ڈی میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب کا دفتر قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن سمندر پار پاکستانیوں کی پاکستان میں پراپرٹیز کو محفوظ بنانے اور ان کو مختلف قسم کے فراڈز سے بچانے کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ خبر یہ بھی ہے کہ شاید یہ دفتر عارضی طور پر بند کیا گیا ہے‘‘۔ اور اب چند معروضات اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب کا قیام ’’پنجاب فوڈ اتھارٹیٔ‘‘ سے لیکر ’’کچن گارڈننگ منصوبہ‘‘ تک شہباز شریف کے چند عمدہ اقدامات میں سے ایک تھا کہ ایسے بامعنی منصوبوں کی مجھ جیسے شخص نے بھی ہمیشہ کھل کر تعریف کی۔ دوسری بات یہ کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ مجھے خصوصی لگائو ہے۔ اس لئے میں نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ہمیشہ ان کو ووٹ کا حق دلانے کیلئے آواز اٹھائی۔ میں خود کبھی اوورسیز پاکستانی رہا ہوں اور ان کے دکھوں اور مسائل سے خاصا واقف ہوں۔ پھر میرے خاندان کا پونا حصہ یورپ سے امریکہ تک پھیلا ہوا ہے جن سے میں اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، ناانصافیوں کے عجیب عجیب قصے سنتا رہتا ہوں۔ میرے ذاتی دوستوں کے علاوہ میرے ملاقاتیوں میں بھی اوورسیز پاکستانی فیملیز سرفہرست ہیں جو ادھر ادھر سے میرے فون نمبرز لیکر یا میرے احباب کے ذریعے مجھ سے رابطہ کرتے اور ملنے تشریف لاتے ہیں تو ان کے مسائل سن کر شرم بھی آتی ہے، تکلیف بھی ہوتی ہے۔ جو ماڑا موٹا میرے بس میں ہوتا ہمیشہ کیا لیکن یقیناً یہ ’’کلے بندے دا کم‘‘ ہرگز نہیں۔ پھر اک خوشگوار حیرت کا باب کھلا اور وہ یہ کہ اوورسیز پاکستانیز کمیشن کے قیام کے بعد میں نے بیسیوں اوورسیز پاکستانیوں سے اس کمیشن کی تعریفیں سنیں، لوگوں کو دعائیں دیتے سنا جو میرے لئے ناقابل یقین اس لئے تھا کہ بدقسمتی سے ہمارا کلچر ہی کچھ ایسا ہو چکا ہے کہ ہمارے سرکاری نیم سرکاری ادارے اور دفاتر لوگوں کیلئے آسانیاں پیداکرنے کے بجائے ان کیلئے مشکلات پیدا کر کے اپنے لئے ’’آسانیاں‘‘ پیدا کرتے ہیں۔ خدا کرے یہ دفتر عارضی طور پر ہی بند ہوا ہو ورنہ یہ ’’کام‘‘ افسوس ناک ہی نہیں شرمناک بھی ہوگا۔ میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کےساتھ ساتھ اس کمیٹی کو بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو علیم خان، چوہدری سرور، چوہدری پرویز لٰہی صاحبان پر مشتمل وزیراعلیٰ کی رہبری و معاونت کیلئے تشکیل دی گئی ہے (اگر یہ محض افواہ نہیں)۔ پی ٹی آئی دماغ کھلا اور اور دل بڑا رکھے کیونکہ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ گزشتہ حکومت کا ہر کام اور ہربندہ ہی برا اور فضول ہو مثلاً پنجاب فوڈ اتھارٹی ہی دیکھ لیں جس کی پرفارمنس بے مثال تھی۔ اس کا سابق سربراہ، ڈائریکٹر جنرل نورالامین مینگل کام نہیں جہاد کررہا تھا جس کے بارے میں ایک بار برادرم جواد نظیر نے کہا کہ اس بلوچ افسر کو ’’اعزازی پنجابی‘‘ قرار دیا جانا چاہئے جو پنجاب کے بچوں کے مستقبل کی جنگ اس بے جگری سے لڑ رہا ہے کیونکہ کیمیکل زدہ، ملاوٹ کی ماری غلیظ خوراکیں آدم خور ہوتی ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ محکموں اور ملازموں کی کارکردگی دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ یہ نہیں کہ کس نے محکمہ بنایا اورپھر کون سا بندہ لگایا۔ ا گر کسی اور پارٹی کو چھوڑ کر ’’پی ٹی آئی‘‘ جوائن کرنے والا بندہ قبول ہوسکتا ہے تو کسی اور کا تعینات کیا گیا سرکاری افسر کیوں نہیں؟ یہاں ہر کوئی احد چیمہ یا فواد حسن فواد نہیں جو وفا اور ریا میں حد سے گزر جاتے ہیں۔ لوگوں نے زندہ بھی رہنا ہوتا ہے خصوصاً جب کوئی پارٹی یا فرد لگا تار دس دس سال گردن پر سوار رہے۔ آخر پر وفاقی کابینہ کے شاندار، جاندار، باوقار اور یہ یادگار فیصلے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکمرانوں کے صوابدیدی فنڈز ختم کردیئے گئےسرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 تا شام 5 وزیراعظم خصوصی طیارہ استعمال نہیں کریں گےفرسٹ کلاس میں سفر کی سہولت ختم محکموں میں حاضری کیلئے بائیومیٹرک سسٹم نصب ماس ٹرانزٹ منصوبوں کا فرانزک آڈٹ ہوگاانہوں نے ملک کو واقعی ’’ماسی دا ویہڑا‘‘ اور اپنے باپ کا جاگیر سمجھ رکھا تھا۔ دودھ کی رکھوالی باگڑ بلے اور چھیچھڑوں کی رکھوالی خارش زدہ بلیاں کررہی تھیں، خربوزوں کی رکھوالی گیدڑ اور ماس کی رکھوالی مردار خور گدھ کررہے تھے۔ نوازشریف 51 ارب کے صوابدیدی فنڈز اڑا گیا 30 ارب کے فنڈز ایم این ایز کو دان کردیئےاورتو اور معصوم و مظلوم ممنون نے بھی 9 کروڑ کے صوابدیدی فنڈز لنڈھائےمیرا رب ان صوابدیوں، استحقاقیوں، پروٹوکولیوں اور عوامی مراعاتیوں سے اس ملک کو محفوظ رکھے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ عمران نے کام اسی طرح دبائے رکھے تو اگلی بار ایم این اے، ایم پی اے کے امیدوار کہاں سے آئیں گے؟