نواز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت کے 4 سالوں میں 64 غیر ملکی دورے کئے جن پر ایک ارب روپیہ خرچ ہوا اور حاصل وصول کی کچھ خبر نہیں یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا ایک ارب۔ اس خاندان کو عربوں اور اربوں سے خصوصی دلچسپی ہے جبکہ عوام کو روٹی روزی کے چکر میں عربوں کے متعلق تو خاصا علم ہے کہ یہ کیسے ہوتے ہیں؟ان کی دلچسپیاں، ترجیحات و مصروفیات کیا ہوتی ہیں لیکن اربوں بارے عوام لاعلم ہیں۔ اچھا خاصا معقول آدمی بھی نہیں جانتا کہ ایک ارب میں کتنے کروڑ ہوتے ہیں۔ عام آدمی تو شاید اس سے بھی واقف نہ ہو کہ ایک کروڑ میں کتنے لاکھ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے کرتوں دھرتوں نے تو ارب کھرب کو بھی صحیح معنوں میں ٹکے ٹوکری کرکے رکھ دیا ہے ورنہ کبھی ’’لکھ پتی‘‘ بھی بڑی شے سمجھا جاتا تھاجس کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ ہمارے بچپن میں ’’سات لاکھ‘‘ کے نام سے اک فلم بنی جس نے دھوم مچا دی تھی۔ اس فلم کے یہ گیت تو آج بھی روز اول کی طرح سحرطاری کر دیتے ہیں۔ ’’آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے تو چھٹی لے کے آجا بالما‘‘’’یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں‘‘’’قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے‘‘پھر یوں ہوا کہ لکھ پتی بھی ککھ پتی ہو گئے اور اب تو چند سالوں سے نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لاکھوں کیا، کروڑوں کی حرام خوری کے سکینڈل کو بھی کان ترس گئے ہیں۔ اربوں کھربوں سے کم کا کوئی کیس ہی سنائی دکھائی نہیں دیتا تو شاید قصور حرام خوروں اور راشیوں کا بھی نہیں کیونکہ حکمرانوں نے روپیہ ہی بری طرح رول کے رکھ دیا ہے جسے اقتصادی اصطلاح میں ’’ڈی ویلیو‘‘ ہونا کہتے ہیں۔ یوں تو کسی نے بھی کم نہیں کیا لیکن پاکستان کی پوری اقتصادی تاریخ میں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار جیسا بے درد بھیانک قسم کا ’’اکنامک ہٹ مین‘‘ میری نظر سے نہیں گزرا اور میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی وجہ نااہلی نہیں تھی بلکہ یہ سب کچھ ایک انتہائی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ عہد حاضر میں جنگوں کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب کسی ملک کے جسم کو باہر سے بم، گولی یا گولہ نہیں مارا جاتا بلکہ اندر سے زخمی، گھائل اور کھوکھلا کر دیا جاتا ہے۔ اندر سے گلائوسڑائو کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ظاہراً سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے لیکن باطن میں گردے گال دیئے جاتے ہیں، پھیپھڑے چھلنی کر دیئے جاتے ہیں، دل کمزور کر دیا جاتا ہے اور جگر جواب دینے لگتا ہے۔ یہ سارے اہداف حاصل کرنے کا خفیہ طریقہ یہ ہے کہ ملکی معیشت کو مختلف طریقوں سے اس طرح تہس نہس کر دو کہ وہ ’’وائیبل‘‘ ہی نہ رہے۔ اندرونی بیرونی قرضوں کی دلدل میں دھنسے ملک کی کرنسی جب ردی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتی ہے تو سوویت یونین کی طرح اس کا جغرافیہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے، تاریخ پر بھی خط تنسیخ پھر جاتا ہے۔ ترقی کی آڑ میں یہی کھیل پاکستان میں بھی کھیلا جا رہا تھا۔ کسی بھی ملک کی معیشت اور نتیجہ میں معاشرت کو برباد کرنے کے کئی طریقے اور حربے ہیں جن میں قرضے ہی نہیں کرپشن کے کلچر کا بے دریغ فروغ بھی شامل ہے۔ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب ترین کرنا بھی اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ یہ باریک بخیہ گری اس طرح کی جاتی ہے کہ ان پڑھ تو کیا پڑھے لکھوں کے پلے بھی کچھ نہیں پڑتا۔ انہیں بھی سمجھ نہیں آتی کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔ وہ بھی احمقوں کی طرح یہ بھونڈی دلیل دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں ‘‘یا یہ کہ ’’کون نہیں کھاتا جی ‘‘ نتیجے میں سب کچھ کھوہ کھاتے میں چلا جاتا ہے۔ اکثریت "NEED" کی وجہ سے کرپٹ ہو جاتی ہے اقلیت "GREED" کی وجہ سے جی بھر کر ملک کو لوٹتی ہے۔ ’’پوٹے‘‘ بھی بھر جاتے ہیں اور اوجھڑیاں بھی بھر جاتی ہیں لیکن ملک ’’بھوکا‘‘ رہ جاتا ہے اور بھوک سے مرنا بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ پھر نوبت وہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ’’وہ بھوک ہے اعضاء کہیں اعضاء کو نہ کھالیں‘‘اندھی لوٹ مار کا جو عمل تقریباً 30 سال پہلے شروع ہوا اس کی انتہا کو دیکھنا اور سمجھنا ہو تو یہ تازہ ترین خبر سرخیوں سمیت ملاحضہ فرمائیں۔ ’’45 ارب پتی موجودہ اور سابق پولیس افسروں کے خلاف انکوائری کا فیصلہ ‘‘’’کس کس کا کاروبار میں حصہ، کیسے اربوں روپے کمائے؟بیرون ملک کتنے اکائونٹس ہیں۔ اہم اداروں نے کام شروع کر دیا‘‘’’ارب پتی پولیس افسروں میں 8 سابق آئی جی، 13 سابق ڈی پی او، 17 آر پی او اور بارہ ایس ایس پی شامل ہیں ‘‘’’انسپکٹر رینک کے 4 افسر بھی ارب پتی ‘‘’’ایک سابق پولیس افسر کا پنجاب کے لینڈ مافیا سے بھی تعلق ‘‘’’رپورٹ میں ایک آئی جی رینک کے افسر کو سندھ کے اندر ایرانی تیل کا سب سے بڑا ڈیلر اور مافیا قرار دیا گیا ہے‘‘قارئین !چھوٹی موٹی رشوت، ڈالی 30، 32 سال پہلے بھی موجود تھی لیکن آج کے مقابلہ پر عشر عشیر بھی نہیں کہ گزشتہ 30 سال میں تو لوٹ مار ہی ہمارا ٹریڈ مارک رہ گیا اور کچھ شرفاء نے اسے باقاعدہ ’’وے آف لائف ‘‘ میں تبدیل کر دیا جسے تبدیل کرنا ہی اصل تبدیلی ہو گی۔