تعلیم کا شعبہ وطن عزیز میں ابتدا ہی سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ غیر معیاری اساتذہ اور خود ساختہ قومی و تہذیبی نرگسیت کا پرچار کرکے تعلیم کے ذریعے علم و تحقیق یا دلائل پر مبنی اذہان تیار کرنے کے بجائے سوچ و تحقیق سے عاری اذہان کی تخلیق آج بھی وطن عزیز میں زور و شور سے جاری ہے۔ آپ تعلیم کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وطن عزیز کی تمام مذہبی شدت پسند جماعتیں سلیبس میں معمولی سی ترمیم پر بھی آسمان سر پر چڑھا لیتی ہیں اور وطن عزیز کے تعلیمی نظام کو جدید دور کے تقاضوں سے ہرگز آشنا نہیں ہونے دیتیں۔ حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے میٹرک کے پرچے میں پوچھے جانے والے سوال پر ہمارے شدت پسند دانشوروں اور جماعتوں نے آسمان سر اٹھا لیا۔
انگلش کے پرچے میں طلبا سے بڑی بہن پر مضمون لکھنے کا کہا گیا تھا اور اس مضمون کے اندر سوال یہ تھا کہ بڑی بہن کی فزیک بھی بیان کریں۔ اس سوال پر انگریزی زبان سے نابلد اور زمانہ جاہلیت اور صدیوں پرانے فردسودہ خیالات میں بسنے والے افراد نے شور مچا دیا کہ یہ بے حیائی ہے کہ بہن کا فگر بیان کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ حسب معمول الیکٹرانک پرنٹ میڈیا میں موجود کٹر شدت پسند صحافیوں نے بنا تحقیق اسے خبر بنایا اور سوشل میڈیا پر بیٹھے تماش بینوں نے اسے معاشرتی اور اخلاقی بنیادوں پر ایک کاری ضرب قرار دے ڈالا۔
حالانکہ انگریزی زبان میں لفظ فزیک کا مطلب انسان کی پرسنالٹی کے طور پر لیا جاتا ہے اس کے قد کاٹھ سے متعلق ہوتا ہے۔ اگر فگر پوچھنا مقصود ہو تو خواتین کیلئے فگر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ فزیک کا۔ خیر یہ بے معنی سی بات ہے اصل بات یہ پے کہ اس سوال کو لے کر غیرت بریگیڈ کو ایک موقع میسر آ گیا اور چار چار بیویوں کی تمنا رکھنے اور جنت میں 72 حوروں کے ساتھ مباشرت کے سپنوں میں کھوئے ہوئے اس طبقے نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
عورت کو لے کر ہمارے ملک کا مذہبی اور بائیں بازو کا دانشور اور صحافی طبقہ جسقدر حساس ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور معاشرے میں اس کی مثال ملتی ہو۔ معاشرتی اوراخلاقی اقداروں کے یہ خود ساختہ ٹھیکیدار پچھلی کئی دہائیوں سے غیرت اخلاقیات مذہب رسوم و رواج کے نام پر معاشرے میں جنسی استحصال اور تفریق کا مسلسل باعث بنتے ہی آ رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو خود چھپ کر تو مباشرت سے محظوظ ہونے کے نت نئے طریقوں دوارے یا تو کتابیں پڑھتا ہے یا لکھتا ہے لیکن منافقت کا یہ عالم ہے کہ کہیں کوئی بات ان کی قبائلی یا فرسودہ سوچ کے متضاد ہو جائے تو مذہب اور اقدار کے جھنڈے اٹھائے یہ طبقہ فورا اخلاقیات و پاک دامنی کا علم بلند کر دیتا ہے۔
اس رائٹ ونگ کے کٹر طبقے کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں نہ تو انسانی نفسیات اور جبلتوں کے بارے میں آگاہی ہے اور نہ ہی انہیں تغیرات زمانہ کا کچھ ادراک ہے۔ اس پرچے میں بہن کے متعلق سوال پر شورو غل بپا کرنے سے بہتر ہوتا کہ وہ ممتحن جس نے یہ سوال پوچھا تھا اس کی رائے لے لی جاتی کہ اس نے یہ سوال کیوں پوچھا اور اس کا بنیادی مقصد کیا تھا۔ رہی بات ہماری مذہبی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ خاتوں خواہ وہ کسی بھی روپ یا رشتہ میں ہو اس سے ہماری کھوکھلی روایات اور اخلاقیات کیسے نتھی ہوتی ہیں۔
دراصل بنیادی جبلتوں سے منہ موڑے یا چوری چھپے ان کی تسکین کرکے اپنے خود ساختہ احساسـں گناہ سے بچنے کیلئے یہ سب سے آسان طریقہ ہے کہ معاشرے میں نہ تو بنیادی جبلتوں پر صحمتدانہ مکالمے کا آغاز ہونے دیا جائے اور نہ ہی ان جبلتوں سے متعلق کوئی آگاہی دی جانے کا کوئی زریعہ قائم ہونے دیا جائے۔ بہن کی عزت یا اس رشتے کی پاکیزگی اس طرح کے سوالات سے کبھی بھی نہیں کمزور پڑتی البتہ بہنوں کو غیرت پردے اور شرم و حیا کے نام پر بنیادی حقوق اور زندگی کہ بنیادی جبلتوں سے محروم کرنے سے اس رشتے پر سوالات ضرور کھڑے ہوتے ہیں۔
بنیادی طور پر غیرت بریگیڈ آج بھی ضیاالحق کی تعلیمات اور افکار کو معاشرے پر تھوپنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پارسائی کے کھوکھلے نعرے اور عورت کو شرم و حیا کا پیکر بنانے پر مصر اس غیرت بریگیڈ نے مذہب کی آڑ لے کر آج تک معاشرے میں نفرتیں اور شدت پسندی کو فروغ دینے کے علاوہ کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا بنیادی مقصد نہ صرف ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہوتا ہے بلکہ ہر قسم کے تعصب اور جنسی تفریق سے ہٹ کر ایک آزادانہ اور خود مختار نظریات قائم کرنا بھی ہوتا ہے۔
اگر بچوں کو ابتدا ہی سے یہ تصور دے دیا جائے کہ تعلیم کا مقصد محض ڈگری کے حصول کی خانہ پری ہے اور اصل میں صدیوں پرانے خیالات رسوم و رواج کو اہمیت دینا لازم ہے تو پھر معاشرے میں بہنوں کا غیرت کے نام پر قتل بھی ہوتا ہے ان کا معاشی و جزباتی استحصال بھی ہوتا ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بچے سوچنے سمجنے کی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں۔ غیرت بریگیڈ کے پاس چونکہ مذہب کی چھتری موجود ہوتی ہے جس کے وہ خود ساختہ ٹھیکھیدار ہوتے ہیں اس لیئے عام آدمی کیلئے ان کی اس فرسودہ سوچ کو چیلنج کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
آپ ان سے مکالمہ کرنے کی کوشش کریں تو یہ فورا مذہب کی آڑ لے کر لوگوں کے جزبات سے کھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی مکالمہ دلیل کے بنا نہ تو شروع کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی پنپ سکتا ہے۔ اس لیئے زیادہ تر ایسے معاملات پر مکالمے کا آغاز ہو ہی نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو بولنے لکھنے والے زیادہ تر دانشور صحافی بھی غیرت بریگیڈ میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں کیونکہ ایک تو یہ پاپولسٹ اپروچ ہے جس کے تحت آپ کو نہ صرف قبولیت کی سند بھی مل جاتی ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ پارسائی اور محب وطنی کا سرٹیفیکیٹ بھی۔
دوسری جانب ان فرسودہ خیالات و نظریات کو چیلنج کرنے والے افراد زیادہ تر لادین گنہگار اور غدار کہلواتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں صحافتی و ادبی غیرت بریگیڈ درآصل مذہبی چورن فروشوں کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتی ہے اور ہر ممکن طریقے سے معاشرے میں حبس و گھٹن کی فضا برقرار رکھنے میں اپنا حصہ ڈالتی دکھائی دیتی ہے۔ بچوں کو الف لیلوی داستانیں اور صدیوں پرانے قصے سنا کر ماضی کا قیدی تو بنایا جا سکتا ہے لیکن نہ تو ایسا کرنے سے بچوں کا آج تبدیل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کل۔
معاشرے غیرت کا پرچم تھامے مذہبی شوربہ فروشوں کے دم پر نہیں بلکہ فرسودہ خیالات کو چیلنج کرنے اور دلیل و منطق کا علم تھامے افراد کے دم پر نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ آگے بڑھتے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ نہ تو بے حیائی ہے اور نہ ہی معاشرتی و مذہبی اقدار کی پامالی بلکہ اصل مسئلہ غیرت بریگیڈ اور مذہبی چورن فروشوں کا علم و تحقیق اور دانشوری کے محاذوں پر زبردستی قبضہ کرنے کی کوشش ہے جسے ناکام بنانا ہر زی شعور شہری دانشور اور صحافی کا فرض ہے۔