قائد اعظم یونیورسٹی کے فزکس بلاک کو ڈاکٹر عبدالسلام بلاک کا نام دے دیا گیا اور ہر سال اس شعبے سے پانچ بہترین طالبعلموں کیلئے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سکالر شپ کے پروگرام کا بھی اعلان کر دیا گیا۔ بالآخر دہائیوں کے بعد ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کا قومی سطح پر اعتراف کر ڈالا۔ اس خبر میں جو سیاسی پہلو انتہائی دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف نے عبدالسلام بلاک کے نام کی منظوری دیتے ہوئے انہی کے نام پر سکالر شپ پروگرام کی بھی منظوری دی۔
نواز شریف نے ایک بار پھر اپنی بدلتی ہوئی سیاست کی جانب واضح توجہ مبذول کروائی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو صرف ایک مخصوص فرقے سے تعلق کی بنا پر پاکستان میں تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور کوئی بھی سیاسی جماعت یا آمر رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالسلام کو سرکاری طور پر اون کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے تھے۔ نواز شریف نے بالآخر اس نازک مسئلے کو چھیڑ کر یہ بات ثابت کر دی کہ ان کی سیاست میں اب پختگی اور سنجیدہ پن آچکا ہے۔
مذہبی اور رائٹ ونگ کے ووٹ پر انحصار کرنے کے بجائے اب نون لیگ لبرل اور شہری علاقوں کے پڑھے لکھے ووٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہی ہے۔ یعنی اپنے بنیادی ووٹ بنک کو قائم رکھتے ہوئے حکمران جماعت لبرل اور نئے ووٹ بنک کو بھی اپنی جانب راغب کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے برعکس نون لیگ اس امر کو سمجھنے میں کامیاب ہوگئی کہ بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں سیاسی تشخص کو قائم رکھنے کیلئے اپنے روایتی ووٹ بنک سے ہٹ کر نئے ووٹ بنک کی ہمدردی حاصل کرنا انتہائی اہم ہے۔ اس سیاسی حکمت عملی کا فائدہ یقینا نواز شریف اور ان کی جماعت کو اگلے انتخابات میں ضرور ہوگا۔
سیاسی حکمت عملی سے ہٹ کر اگر معاشرے پر اس فیصلے کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ معاشرتی بلوغت کی جانب ایک انتہائی اہم اقدام ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو محض ان کے ذاتی عقیدے کے باعث سرکاری اور معاشرتی سطح پر نظر انداز کیا جانا ایک بہت بڑی زیادتی تھی۔ اور یہ زیادتی سرکاری و غیر سرکاری دونوں سطح پر روا رکھی گئی۔ عقیدوں کی بنا پر کسی بھی فرد کی قابلیت یا اس کے کارناموں کو تسلیم نہ کرنا جہالت کی بدترین قسم ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس قسم کی جہالت وافر مقدار اور تعداد میں موجود ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا عقیدہ کیا تھا نہ تو فزکس کو اس سے غرض ہے اور نا ہی نوبل انعام دیتے وقت انسانوں کے عقیدوں کو دیکھا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں چونکہ تخلیق کے ہر پہلو سے نفرت کی جاتی ہے اس لیئے عقیدوں کی بنا پر اور خود تراشے ہوئے گناہ و ثواب کے پلڑوں میں شخصیات کو تولا جاتا ہے۔ جھوٹ فریب ملاوٹ کرپشن چوری اختیارات کے ناجائز استعمال کے وقت اپنے اپنے لیئے ان گناہ و ثواب کے پلڑوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جس پیغمبر اور جس دین کی بتائی ہوئی باتوں کوکو روز بے ایمانی عیاری اور مکاری اور اپنے اپنے مفاد کیلئے جھٹلایا جاتا ہے اسی دین اور پیغمبر کی حرمت کی آڑ میں اقلیتوں اور مخصوص فرقوں کو دبانے کا کام جاری و ساری رہتا ہے۔
خیر اب اس فیصلے کے بعد کم سے کم معاشرے میں موجود ان شدت پسندوں کی حوصلہ شکنی ضرور ہوگی جو ہر قیمت پر محض اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کو مذہب اور عقیدوں کے نام پر پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کا سرکاری سطح پر قبول کیا جانا ہمارے حبس زدہ معاشرے میں کسی بھی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہے۔ اگر وزیر اعظم وفاق بلوچستان اور پنجاب کی نصابی کتابوں میں بھی ڈاکٹر عبدالسلام دوارے ایک باب کا اضافہ کر دیں تو شاید ہم مستقبل میں ڈاکٹر عبدالسلام جیسی کئی شخصیات پیدا کر سکتے ہیں۔
نصاب کی کتابوں میں اگر ایک باب معاشرے میں موجود مختلف عقائد اور نظریات رکھنے والے فرقوں کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنے کے متعلق بھی شامل کیا جائے تو شاید نفرتوں کی خود ساختہ دیوار گرا کر آگے بڑھنے کا راستہ باآسانی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں نصاب کو درست کرنے کے علاوہ ان خود ساختہ شدت پسند لکھاریوں اور دانشوروں کی بھی سرزنش کی ضرورت ہے جو تخلیقی صلاحیتوں سے ناآشنا آج کے دور میں بھی تحاریر کالمز اور ٹاک شوز میں نسیم حجازی کے ناولوں پر مبنی فرضی حقائق پیش کرکے عوام میں اشتعال پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔
احمدی ہو یا ہندو ہر فرد کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر ہوں تو معاشرہ پنپنے پاتا ہے۔ عقائد ملک میں بسنے والے شہریوں کے زاتی تجربات مشاہدات اور علم کی بنا پر تشکیل پاتے ہیں اور عقائد کو نجی حیثیت میں ہی تسلیم کرنا ایک متوازن معاشرے کے قیام کا باعث بنتا ہے۔ عقائد کے غلط یا درست ہونے کا فیصلہ کسی بھی فرد گروہ یا جماعت کے پاس نہ تو ہو سکتا ہے اور نہ ہوگا۔
ڈاکٹر عبدالسلام کی سائنسی خدمات میں نہ تو ان کے عقیدے کا عمل دخل تھا اور نہ ہی مذہب کا۔ سائنس آرٹ یا کوئی بھی تخلیقی شعبہ عقائد کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ محنت اور تخلیقی صلاحیتوں سے ان شعبہ جات میں نمایاں مقام حاصل کیا جاتا ہے۔ جو حضرات ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات سے محض اس لیئے انکاری ہیں کہ ڈاکٹر صاحب احمدیہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے یا جن افراد کو معلومات تک رسائی حاصل نہیں اور نہ ہی وہ تعصب پسندی کی عینک اتار کر معلومات تک رسائی حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کیلیئے مولانا رومی کا مشہور قول یاد آتا ہے کہ " علم خدا کی عطا کردہ جنت ہے جبکہ جہالت خدا کی طرف سے مسلط کردہ جہنم ہے"۔
دنیا بھر میں سائنس یا دیگر تخلیقی شعبہ جات میں نمایاں مقام حاصل کرنے والوں کو تعصب عقیدے اور مذہب کی تفریق کے بنا سراہا جاتا ہے اور ان کی خدمات کو انسانیت کی بھلائی اور ترقی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر عقیدوں کی بنا پر کسی کی قابلیت پرکھنے کا یہ سلسلہ جاری رکھنا ہے تو پھر ہمیں میڈیکل سائنس انفارمیشن ٹیکنالوجی موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال اور آرٹ موسیقی کو سننا اور دیکھنا بھی ترک کر دینا چائیے کیونکہ یہ تمام شعبہ جات بھی زیادہ تر ہمارے عقائد کو نہ ماننے والوں کے ہی عطاکردہ ہیں۔
وہ لکھاری اور دانشور جو الیکٹرانک میڈیا اور ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر مذہبی منافرتیں پھیلانے اور شدت پسندی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ کیا کفار کی ایجاد کردہ آسائشوں اور ایجادات کو استعمال کرتےہوئے کبھی یہ خیال بھی آیا کہ اگر نسل در نسل عقیدوں اور مذہب کی بنیاد پر نفرتوں کا زہر نہ گھولا جاتا تو ہمارے بچے بھی جدید دنیا کے مارک زکر برگ سٹیو جابز یا ڈاکٹر عبدالسلام بن سکتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو ویسے تو کبھی بھی مذہب چورن فروشوں کی تائید کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس عظیم پاکستانی ہیرو کو متنازعہ بنا کر خود اپنی کئی نسلوں کو تعصب کی آگ میں جھونکنے کا نقصان خود پاکستان اور اس میں بسنے والوں کا ہوا ہے۔
جہاں سرکاری سطح پر اس عظیم شخص کو بالآخر تسلیم کر ہی لیا گیا ہے وہیں اب سرکاری سطح پر اقلیتوں کو مکمل بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور انہیں بنا کسی خوف کے اپنے اپنے نظریات و عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کے مواقع دیتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع بھی فراہم کرنا چائیں۔