اسلام آباد پر مذہب کے ٹھیکیداروں کی یلغار کو قریب دو ہفتے ہونے والے ہیں۔ فیضّ آباد انٹر چینج پر قبضہ جمائے یہ چند سو افراد جڑواں شہروں کے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اجیرن کئیے بیٹھے ہیں۔ راقم نے خود فیض آباد جا کر اس دھرنے کا حال دیکھا ہے۔ مقررین کے منہ سے جس قسم کی غلیظ گالیاں اور گفتگو سننے کو ملی اس کا ذکر بھی یہاں کرنا مناسب نہیں۔ مذہب کے یہ خود ساختہ ٹھییکیدار جس مسئلے کو بنیاد بنا کر فیض آباد انٹرچینج کو یرغمال بنائے بیٹھے ہیں وہ دراصل اس قدر حساس ہے کہ نہ حکومت اس پر کوئی ایکشن لیتی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی سول سوسائٹی کسی بھی قسم کا رسک اٹھانےکو تیار ہے۔ توہین مذہب اور توہین رسالت کی آڑ میں چونکہ کسی بھی انسان کو قتل کر دینا ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے اس لئیے کوئی بھی ان مذہبی ٹھیکیداروں کو ان کی جگہ سے اٹھانے کا رسک لینے کو تیار نہیں۔ گو دھرنے میں موجود شرکا کی تعداد محض سینکڑوں میں ہے لیکن اس دھرنے یا اس مائنڈ سیٹ کی تائید کرنے والے افراد کی تعداد کڑوڑوں میں ہے۔ ہر وہ شخص جو مذہب یا توہین کی آڑ میں کسی بھی دوسرے شخص کی جان لینے کو درست سمجھتا ہے وہ دراصل اس دھرنے والے مذہبی جنونیوں کا فکری و نظریاتی ساتھی ہے۔ فیض آباد پل پر بیٹھے یہ افراد پتھر کے دور کے انسانوں کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ جو دلیل اور منطق کی طاقت کے بجائے صرف گلا پھاڑنے اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو قتل کرنے کی سوچ پر یقین رکھتے ہیں۔ مولوی خادم حسین کو دیکھ کر تو مشہور زمانہ فلم "پی کے" کے کردار سوامی جی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جو مذہب اور خدا کے تحفظ کے نام پر لوگوں کو ٹھگتا ہے۔ صرف مولانا خادم ہی نہیں بلکہ اس وطن میں موجود لاتعداد مذہب کے بیوپاریوں کی مفت روزی روٹی اور عیاشی اسی دھندے سے جڑی ہوئی ہے۔ ملک میں موجود لاتعداد نام نہاد پیر بابے عالم یا مولوی "مذہب خطرے میں ہے" یا "مقدس ہستیوں کی توہین" جیسے معاملات کو جانتے بوجھتے اچھالتے ہیں اور پھر نذر نیازوں اورچندے و خیرات کی ایک خطیر رقم بٹور کر مزے کرتے پائے جاتے ہیں۔ ہماے ہاں پیر بابوں یا مولویوں کا کام دھندہ صرف اور صرف مریدین اور عقیدتمندوں کی جیبوں سے رقوم بٹورتے ہوئے زندگی گزارنا اور ان مریدین اور عقیدتمندوں کے دماغ پر اپنی طاقت اور دھاک بٹھانا ہے۔ مذہب فروشوں کے اس دھندے میں"عقیدتمند" دراصل گاہک ہیں اور مذہب فروش دوکاندار۔ ایک عام گلی محلے کے مولوی یا پیر سے لیکر بڑے بڑے نام نہاد پیروں مولویوں زاکروں اور علما کی جانب دیکھئے یہ تمام افراد اپنی اپنی مذہب کی تشریح کو بنیاد بناتے ہوئے اس دھندے میں"عقیدتمندوں" کو یرغمال بناتے ہیں۔ چونکہ عقیدتمند خود سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے عاری ہوتے ہیں اس لئیے کسی بھی پیر ذاکر یا مولوی کی از خود گھڑی ہوئی اور حقائق کے منفی باتوں پر من و عن ایمان لے آتے ہیں اور ساری زندگی فکری غلامی کا طوق پہنے ان مذہبی دوکانداروں کی دی گئی افیون کے نشے میں دھت رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مملکت خداداد میں بسنے والے کڑوڑہاعقیدتمند کبھی مٹھی بھر قادیانییوں سے دین کو خطرہ سمجھتے ہیں تو کبھی مسیحی اور دیگر اقلیتیں ان عقیدتمندوں کیلئے وبال جان بچ جاتی ہیں۔ معاشرے میں شدت پسندی کا ناسور پھیلانے میں جہاں"مذہب فروشوں" کا بہت بڑا ہاتھ ہے وہیں ان مذہب فروشوں کے "عقیدتمند" بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ معاشیات کے اصول طلب اور رسد پر مبنی یہ دھندا کسی طور پر بھی پنپ نہیں سکتا اگر اس طلب میں کمی ہو جائے یا یہ طلب ختم ہو جائے۔ عقیدتمند حضرات اگر شخصی خلا کو پر کرنے یا احساس ندامت (Guilt) سے بچنے کی خاطر بجائے مذہبی چورن فروشوں سے رجوع کرنے کے سیدھے سیدھے خدا سے رجوع کریں تو معاشرے میں موجود مذہبی دکانداروں کی ہٹی فوری طور پر بند ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر آج مولوی خادم حسین دھرنا دئیے بیٹھا ہے تو کل کوئی اور کسی اور مکتبہ فکر یا مسلک سے تعلق رکھنے والا مولوی یا پیر دھرنا دیکر بیٹھ جائے گا۔ کوئی بھی حکومت کسی بھی طور ان ملاوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے جھجکے گی کیونکہ "عقیدتمندوں" کے تعاون سے ملا علما یاپیر بابے اسے معرکہ کفر و حق و باطل بناتے ہوئے ساری کی ساری حکومت کو کافر یا توہین کا مرتکب قرار دے ڈالیں گے۔ حکومت وقت تو پہلے ہی ممتاز قادری کو پھانسی دلوا کر مذہبی دوکانداروں اور عقیدتمندوں کی نظروں میں توہین کی مرتکب ٹھہر چکی ہے۔ اور جس قدر عقیدتمند ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی ہم سائنسدانوں، موجدوں یا خلابازوں کے بجائے عقیدتمندوں کے ہی ایک ہجوم کو جنم دیں گے۔ یعنی "مذہب فروشی "کا یہ کاروبار مستقبل میں بھی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا نظر آتا ہے۔ مولوی خادم حسین جیسے افراد دراصل ہمارے ریاستی بیانیے اور عقیدتمندی کی غلامی کے طوق کی پیداوار ہیں۔ جب ریاست مذہبی نرگسیت اور اصلاف پرستی پر مبنی بیانیہ تشکیل دے اور بذات خود ایسے عناصر کی درپردہ حوصلہ افزائی کرے تو ظاہر ہے کہ پھر ایسے افراد آپ کو جا بجا اپنا اپنا چورن بیچتے دکھائی دیں گے۔ عقیدتمندی بھی جب معاشرے میں پارسائی اور تقوے کا سرٹیفیکیٹ دلوا دے تو پھر دو نمبر موبائل بیچنے والے سے لیکر ناجائز پراپرٹی کے کاروباروں سے پیسہ بنانے والے یا رشوت خوری سے لیکر ہر میدان میں اپنی اپنی بساط کے مطابق دو نمبری کرنے والے افراد بھی عقیدتمندی کا چولا اوڑھ کر سیلف ڈینائل میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اس لبادے کے اوڑھنے سے نہ صرف تمام جرائم پر پردہ پڑ جاتا ہے بلکہ اپنے اندر کے احساس جرم کے کتھارسس کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ بھلے ہی عملی زندگی میں مذہبی تعلیمات اور مقدس ہستیوں کے بتائے ہوئے اصولوں پر زرا برابر بھی عمل نہ کیا جاتا ہو لیکن گلے پھاڑ کر نعرے مارنے اور نذر و نیاز کی دیگیں بانٹ لینے سے مقدس ہستیوں اور مذہب کو بچا لینے کا دھوکہ دینے کی عادت زور پکڑتی جاتی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ریاست کو بذات خود اپنے مذہبی و دفاعی بیانئیے کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ہم سب کو اپنے مجموعی رویوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ انسان کائنات میں ایک دوسرے کو قتل کرنے یا فرقوں اور مسلکوں کی آڑھ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے نہیں آیا اور نہ ہی انسانی زندگی کا مقصد محض پارسائی اور تقوی کے حصول کے سرٹیفیکیٹ کیلئے کسی مذہبی دکاندار کا عقیدتمند بننا ہے۔ سٹیفن ہاکنگ بہتر ہے یا مولوی خادم حسین، پولیو کی ویکسین ایجاد کرنے والا۔ جانس ایڈورڈ سالک بہتر ہے یا پھر ممتاز قادری۔ اس کا جواب ہم سب کو روز مرہ زندگی میں قریب ہر روز ملتا ہے۔ اپنے اپنے بچوں کو پولیو ڈراپس پلوانے یا اپنے کسی عزیز کے دل کا آپریشن کروانے کیلئے کیا آپ کسی مولوی یا کسی پیر کے پاس جاتے ہیں یاپھر ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ? یقینا آپ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ جو چندہ خیرات یا زکوت آپ نذر نیاز کے نام ہر پیر بابوں یا مولویوں میں بانٹتے ہیں یا پھر خادم حسین جیسے شدت پسندوں کو مذہب بچانے کیلئے دان کرتے ہیں وہی پیسہ اگر آپ کسی ہسپتال کسی سکول یا کسی تحقیق گاہ کو دان کریں تو ہم عمر خراسانی یا ممتاز قادری جیسے شدت پسندوں کی جگہ ہم بھی معاشرے میں ایسے انسانیت دوست اذہان تیار کر سکتے ہیں جو دنیا میں انسانیت کے کام آنے کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ فیض آباد میں جاری یہ دھرنا عقیدتمندی کے اندھے پن کی پشت پناہی پر جاری ہے اپنی آنکھوں سے اس اندھی عقیدت، نرگسیت اور تعصب کی پٹی اتاریے یہ دھرنہ اور وطن عزیز کے طول و عرض میں اذہان کو بانجھ اور ناکارہ بنانے کا کاروبار فوعی طور پر ختم ہو جائیں گے۔