1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. گدھ جاتی نے ریاست کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں‎

گدھ جاتی نے ریاست کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں‎

جڑواں شہروں کی سڑکوں پر تادم تحریر حیوانیت اور بربریت کا رقص جاری ہے۔ سینکڑوں ہزاروں افراد ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھائے سڑکوں ہر دندناتے پھر رہے ہیں۔ فیض آباد آپریشن کی ناکامی کے بعد ملک کے ہر بڑے شہر کا کم و بیش یہی حال ہے۔ مذہب اور مقدس ہستیوں کے نام کا استعمال کرکے مذہبی گدھ جاتی کے افراد نے سوچ سے محروم لاکھوں کڑوڑوں انسان نما زومبیز کو ریاست کے خلاف استعمال کرکے کامیابی سے اپنے اور اپنے آقاوں کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست کا مذہبی جنونیوں کے ہاتوں یرغمال بن جانا صرف نواز شریف یا مسلم لیگ نون کی شکست ہے? اس کا جواب نفی میں ہے۔ مذہبی جنونیوں کو سیاست کی لڑائی میں استعمال کرکے پس پشت قوتوں نے ایک بار پھر ریاست کی جڑیں کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا بھر میں ڈنڈا بردار مذہبی جنونیوں کی تصاویر اور جلاو گھیراو کے زریعے پبلک پراہرٹی کو نذر آتش کرنے کے مناظر نشر ہو رہے ہیں اور وطن عزیز کو شام اور افغانستان جیسے ملکوں کے برابر لا کھڑا کر رہے ہیں۔ ُولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ آور بلوائی ہمارے پرامن اور مہزب معاشرہ ہونے کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھولتے ہوئے اس حقیقت کی جانب واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ سانپ پالنے کی پرانی عادت اور خود اپنے گھر کو جلا کر اس پر ہاتھ سینکنے کا شوق ہم نے کسی بھی صورت ترک نہیں کرنا۔ دھرنے اور احتجاج میں شامل بلوایوں سے لیکر ان کی خاموش تائید کرنے والے گھروں میں بیٹھے عام افراد کی اکثریت کو شاید یہ علم بھی نہیں کہ آئینی ترمیم کی جس شق کو بنیاد بنا کر ریاست پاکستان پر دھاوا بولا گیا اس شق کے منررجات کیا ہیں۔ محض وحشیوں کی مانند گلے پھاڑتے ہوئے مار دو جلا دو کے نعرے مارتے بلوائی دین یا قوم کی کیا خدمت کر رہے ہیں عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہےالبتہ ممتاز قادری کو ہیرو ماننے والے اور مولوی خادم جیسے مذہبی گدھ کے پیچھے چلنے والے یہ افرادریاست کے کھوکھلے مذہبی اور دفاعی بیانیئے کا منہ بولتا ثبوت ضرور ہیں۔ مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے ریاستی مذہبی بیانیئے کی مہربانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مذہبی جنونیت اور حیوانیت سے بھرپور لاکھوں افراد اس خود کش جیکٹ کی مانند ہیں جنہیں ریاست نے خود جانتے بوجھتے اپنی چھاتی سے باندھ رکھا ہے۔ کسی روز کوئی بھی نان سٹیٹ ایکٹر اٹھ کر اس خود کش جیکٹ کا بٹن دبا سکتا ہے اور پل بھر میں سب کچھ خاکستر کر سکتا ہے۔ ماضی میں تحریک طالبان ہاکستان کی صورت میں ہم اس کی ہلکی سی جھلک دیکھ چکے ہیں لیکن کیا کیجئیے ہماری اذیت کوشی اور خود لذتی کا کہ بار بار ایک ہی جگہ سے ڈسوا کر ہم تسکین حاصل کرنے کی لت سے بعض ہی نہیں آتے۔ وگرنہ ریاستی مذہبی اور دفاعی بیانئے کو کنٹرول کرنے والی قوتوں کیلئیے کیا یہ معمولی اور آسان سا نقطہ سمجھنا مشکل ہے کہ مذہبی تعصباور عقائد کی ترویج، کافر کافر اور غدار کے نعروں کے برعکس معاشرے میں مکالمے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تا کہ دلیل اور منطق کی قوت سب کو باآسانی سمجھ آ سکے۔ دنیا کا آسام ترین کام بندوق اٹھانا اور گولی چلانا ہوتا ہے اور دنیا کا مشکل ترین کام دلیل منطق اور تعمیر سے اپنے نظریات اور خیالات کو منوانا ہوتا ہے۔ دنیا میں آج تک سائینس ٹیکنالوجی ادب فنون لطیفہ میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ تخلیقی نظریات رکھنے والے افراد کے مرہون منت ہے۔ کوپرنیکس، گلیلیو، آئن سٹائن، سٹیفن ہاکنگز، سٹیو جابز، سیگمینڈ فرائیڈ، ملٹن، گوئٹے، بائرن برٹررنڈ رسل میلان کندیرہ یہ لوگ بندوق یا تشدد نہیں بلکہ تخلیق اور علم کی روشنی پر یقین رکھتے تھے اور نتیجتا آج ساری دنیا ان کی ایجادات اور نظریات و خیالات سے مستفید ہو رہی ہے۔ ہٹلر نپولین مسولینی یا پھر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نے دنیا میں تاریکی بانٹنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔ عقیدے کا تعلق آپ کی اپنی زات تک ہوتا ہے اور علم و تحقیق کی دنیا عقائد پر نہیں بلکہ دلائل اور منطق کی بنا پر چلتی ہے۔ لیکن نجانے کیوں مذہبی اور دفاعی بیانئیے کے ٹھیکیدار دلائل اور منطق کے بجائے تشدد اور بندوق کے دم پر ریاست کے امور چلانے کے خواہاں ہیں۔ اس پر ستم۔ ظریفی یہ ہے کہ ایک جانب جہاں پولیس کے جوان بلوائیوں سے لڑتے ہوئے اپنی جانوں کی بازی لگا رہے یں وہیں فوجی قیادت حکومت کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ دونوں فریقین تشدد سے گریز کرتے ہوئے گفت و شنید سے مسئلے کا حل نکالیں۔ گویا ریاست کے مقابلے میں مذہبی جنونیوں اور بلوائیوں کو ایک طرح سے فریق بنا دیا گیا ہے۔ وہ ادارہ جو نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بے پناہ وسائل وصول کرتا ہے آرام سے اس صورتحال سے منہ پھیر کر حکومت کو مذہبی جنونیوں سے مزاکرات کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ایسے وقت میں آئین کے تحت اس ادارے کو منتخب حکومت کی رٹ بحال کروانے میں فرنٹ لائن ہر کھڑا ہونا چائیے تھا لیکن اس کے برعکس یہ ادارہ وزیر اعظم کو بلوائیوں سے مزاکرات کی دعوت دیتا نظر آتا ہے۔ شاید اس طاقت کی کشمکش کی کہانی ختم ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے اسی لئیے اس کہانی کے تمام کردار ایک ایک کرکے بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ریاستیں بہت مشکل سے بنتی ہیں اور انتہائی دشواری سے اپنا تشخص برقرار رکھنے پاتی ہیں۔ حکومتوں کو کمزور کرتے کرتے ہمیشہ سے وطن عزیز میں ریاست کو کمزور کیا گیا ہے۔ یہ لنگڑی لولی ریاست جو مذہبی جنونیت کا شکار بلوائیوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے مزید کسی بھی سانحے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بلھے شاہ مرزا صاحباں ہیر رانجھے سسی پنوں کی سرزمین کو مذہبی بلوائیوں کے ہاتھوں یرغمال بنوا کر ستر ہزار سے زیادہ لاشوں کا بوجھ معاشرے کے کاندھوں پر ڈالنے والے ناخداوں کو کاش کوئی یہ سمجھا پائے کہ اب یہ معاشرہ لاشیں ڈھوتے ڈھوتے تھک چکا ہے اور مزید لاشیں اس کی کمر توڑ کر اس کو مفلوج کر دیں گی۔ اس دھرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں نے جہاں ریاست پاکستان کو کمزور کیا ہے وہیں اس کی بدولت آج دستانے پہن کر جمہوریت کو مذہبی گدھ جاتی کے افراد کے ذریعے شکار کرنے والے بالآخر "مزاکرات" کا حکم دیتے ہوئے کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ریاست کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنانے والے اس مذہبی اور دفاعی گٹھ جوڑ نے ایک بار پھر وطن کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔

 

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔