بدھ کی سہ پہر پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں 47 قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ اس حادثے نے پورے ملک کو سوگ اور اداسی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ مرنے والوں میں مشہور گلوکار اور نعت خواں جنید جمشید بھی شامل تھے۔ اس حادثے میں مرنے والے افراد کے لواحقین سے ہمدردی کرنے کیلئے شاید ہی کوئی الفاظ کسی لغت میں موجود ہوں لیکن اصل ہمدردی اور ترس اپنے الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹنگ کے طرز عمل پر آیا۔
لمحہ بہ لمحہ آپ ڈیٹ کے نام پر ہر آن اس حادثے کو ایک ایونٹ بنا کر ریٹنگ کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی کوشش میں جو زرد صحافت اور جاہلیت کا طرز عمل الیکٹرانک میڈیا نے اختیار کیا اس کی جتنی بھی مزمت کی جائے وہ کم ہے۔ حادثے اور آفات کی صورت میں کب کیسے اور کس طرح رپورٹنگ کی جائے ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس سے نابلد اور ناشناس دکھائی دیتا ہے۔ ہر ٹی وی چینل کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ سب سے پہلی لاش سب سے پہلی آگ یا سب سے پہلے نقصان کی فوٹیج اور اطلاع اس کے ذریعے پہنچے۔ چونکہ جہاز میں مشہور سیلیبریٹی جنید جمشید بھی موجود تھے اس لیئے تمام ٹی وی چینلز نے باقاعدہ احتمام سے ان کے گائے ہوئے گانوں اور نعتوں کو پس منظر میں چلا کر ان کی یاد میں نوحہ خوانی کرکے خوب ریٹنگز بنائیں۔
قریب چار سے پانچ گھنٹے مسلسل اس حادثے کے بارے میں اس طرح سے نوحہ خوانی اور قیاس آرائیاں کی گئیں کہ خدا کی پناہ۔ رپورٹرز حضرات بریکنگ نیوز کے چکر میں کہیں امدادی کاروائیوں میں مصروف سرکاری اہلکاروں کو تنگ کرتے رہے اور کہیں اینکرز حضرات سول ایوئییشن کے ریٹائرڈ حضرات کو بٹھا کر حادثے کے عوامل دوارے عجیب و غریب احمقانہ قسم کے اندازے لگاتے رہے۔ رہی سہی کثر مرحومہ ائیر ہوسٹس کے کم سن بیٹے کے آنسوؤں کا پیکج بنا کر نکال دی گئی۔ آپ کو امی یاد آ رہی ہیں آپ کو کیسا لگ رہا ہے یہ نیوز پیکج تھا جو پرائم ٹائم میں چلتا رہا۔ نیوز اینکرز اور ٹاک شو کے میزبان مصنوعی درد بھرے انداز میں دکھ غم اور یاس کی تجارت کرتے نظر آئے۔
حادثات اور آفات شاید تخلیقی مواد سے عاری الیکڑانک میڈیا کیلئے خوش خبری سے کم نہیں ہوتے کہ نہ صرف سلاٹ چلانے کیلئے ایسا مواد وافر مقدار میں مل جاتا ہے جس کے حصول کیلئے کچھ خاص محنت نہیں کرنا پڑتی بلکہ عوام کو غم و یاس میں مبتلا کرکے ٹی وی سکرینوں سے جڑے رکھنے کا بہانہ بھی مل جاتا ہے۔ یوں ٹی آر پی بڑھا کر پیسہ کمانے کی جنگ جاری رہتی ہے۔ یہ بھی صرف پاکستان میں ہی ممکن پے کہ فضائی حادثے کے چند منٹوں اور گھنٹوں کے اندر ہی میڈیا کے ذریعے اس حادثے کے بارے میں حتمی آرا قائم کرکے بلکہ فیصلہ سنا کر ائیر لائن کے نمائندوں پر مقدمہ بنانے کی بات بھی سینیئر ترین صحافی حضرات کے منہ سے سننے کو ملتی ہے۔
حادثہ کسی بھی نوعیت کا ہو اس کو سنسنی بنا کر بیچنا ایک گھناونا جرم ہے جس کے تدارک کی فوری ضرورت ہے۔ اس حادثے نے جہاں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹنگ کے انداز اور ریٹنگز کی جنگ کے کئی مکروہ پہلو نمایاں کیئے وہیں اس حقیقت کو بھی آشکار کیا کہ حادثات یا آفات نہ تو گناہوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور نہ ہی سزا کے طور پر یہ رونما ہوتے ہیں۔ حادثہ تو بس حادثہ ہے جو کسی بھی آن کسی بھی گھڑی کسی کے بھی ساتھ پیش آ سکتا ہے۔ وگرنہ مشہور و معروف دینی شخصیت کیونکر اس حادثے کی لپیٹ میں آ سکتی تھی۔ اکثر اوقات یہ حادثات فنی خرابی یا پائلٹ کے غلط فیصلے کی وجہ سے پیش آتے ہیں، ٹھیک جیسے زلزلے زمین میں موجود پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے آتے ہیں۔
حادثات یا سانحات میں مرنے والے افراد کو گناہ و ثواب کے پلڑے میں تولتا میڈیا ہو یا پھر معاشرہ دونوں کو اب اس امر کا ادراک ہو جانا چائیے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے اپنی اپنی دکانیں چمکاتے اینکرز اورصحافیوں کو یہ معلوم ہونا چائیے کہ دنیا کا کوئی بھی پائلٹ کبھی بھی کسی تیکنیکی یا فنی خرابی والے جہاز کے ساتھ ٹیک آف نہیں کرتا اس لیئے افواہوں کا یہ سلسلہ تھمنا چائیے کہ جہاز کا ایک انجن پہلے سے نقص زدہ تھا یا اس میں اور تیکنیکی خرابیاں تھیں اور پائلٹ نے کوتاہی کی۔
اس بدقسمت جہاز کا پائلٹ اور کو پائلٹ دونوں ہی اعلی پیشہ ور افسران تھے تھے اور بنا کسی بھی ٹھوس ثبوت کے ان پائلٹس کے بارے میں اس قسم کی گھٹیا خبریں نہ صرف ان کے لواحقین کے درد میں اور اضافے کا باعث بنتی ہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرے میں بھی منفیت اور مایوسی پھیلانے کا باعث ہوتی ہیں۔ صحافت ہرگز بھی کسی بھی انسان کی عزت نفس کو مجروح کرنے یا کسی کی پگڑی اچھالنے کا نام نہیں ہوتی۔
نہ ہی سنسنی پھیلانے کیلئے ٹی وی چینلز کے لائسنس کا اجرا کیا جاتا ہے۔ پیمرا کو چائیے کہ کم سے کم سانحات اور حادثات کی کوریج کیلیے صحافیوں کی بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ کو لازم قرار دے اور ایسے حادثات میں جو بھی ٹی وی چینل سنسنی پھیلانے کیلئے زرد صحافت کا سہارا لے اس کا لایسنس فی الفور معطل کیا جائے۔ اسی طرح حادثات اور سانحات میں مرنے والوں کے سوگواروں کے غم کو بیچنے پر مکمل پابندی عائد ہونی چائیےتا کہ مائیک پکڑے صحافی اور اینکرز جو مرنے والوں کے لواحقین سے یہ پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ آپ مرنے والے سے کتنی محبت کرتے تھے یا آپ کے پیارے آپ سے بچھڑ گئے آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟
ان کی اس شرمناک اور گھٹیا حرکتوں سے لواحقین اور ناظرین کی جان چھڑوای جا سکے۔ یقینا صحافت میں کسی بھی نیوز اسٹوری میں"ہیومن اینگل" کی از حد ضرورت ہوتی ہے جس کی بنا پر اس اسٹوری سے پڑھنے یا دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کی جاتی ہے لیکن "ہیومن اینگل" اور سنسنی پھیلاتی زرد صحافت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ امید غالب ہے کہ حادثات کو ایونٹ بنانے کا یہ مکروہ فعل اب جلد ہی بند ہو جائے گا۔