وقت کی خوبصورتی یہ ہے کہ وقت کبھی ساکن نہیں ہوتا کبھی جامد نہیں ہوتا۔ صدیوں کا سفر کب اور کیسے ڈھلتا ہے اس کی خبر تک نہیِں ہوتی۔ دنیا اپنے وجود سے لیکر لمحہ موجود تک تبدیلی کا سفر طے کرتی آئی ہے اور آئندہ آنے والی صدیوں میں بھی تبدیل ہوتی رہے گی۔ دنیا میں تبدیلیوں کا سفر انسانی شعور عقائد نظریات میں بھی تبدیلی کا باعث بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کے دور کا انسان گزرے وقتوں میں بستے انسان سے ہزار درجے بہتر شعور اور ادراک رکھتا ہے۔ جوں جوں انسان نے شعور کی ترقی کی سیڑھیاں طے کیں توں توں انسان کے ذہن پر بندھی عقیدوں روایات اور جہالت کی پٹیاں کھلتی چلی گئیں۔
یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں میں غلام رکھنے لونڈیاں رکھنے یا ایک دوسرے کو عقیدوں کی بنا پر مارنے یا کمتر سمجنے والی سوچ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تہزیب یافتہ معاشروں میں بسنے والے قدامت پسندوں اور شدت پسندوں کو بھی اب عقائد ومذہب یا روایات کے بجائے نسل پرستی یا قومیت کے خطرے کا چورن فروخت کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ امریکی صدارتی انتخاب اس ضمن میں تازہ مثال ہے جہاں قدامت پسندوں نے عقائد یا مذہب کی چھتری کے بجائے تعصب اور قومیت کا سہارا لیکر کامیابی حاصل کی۔
اس کے نتائج پر بحث اپنی جگہ لیکن اسـں انتخاب کی مہم اور نتیجے سے ایک بات طے ہوگئی کہ تہذیب یافتہ معاشروں میں بسنے والے قدامت پسندوں کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ اب اس قدر علم اور ٹیکنالوجی کے دور میں پرانے عقائد خیالات اور نظریات کا سہارا لے کر انسانوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن بدقسمتی سے تیسری دنیا میں بسنے والے اکثریت آج بھی ان عقائد نظریات اور روایات کی چھتری تلے پناہ لیتی دکھائی دیتی ہے۔
وطن عـزیز بھی چونکہ اسی تیسری دنیا میں شمار ہوتا ہے اس لیئے یہاں بھی صدیوں پرانے فرسودہ نظریات و عقائد رائج بھی ہیں اور انہیں ماننے والوں کی بہتات بھی۔ عورت کے حقوق کی پامالی سے لیکر خواجہ سراوں کے حقوق کی پامالی اور عریانی و فحاشی کے خلاف خود ساختہ جنگ سے لیکر اقلیتوں کا جینا حرام کرنا ہمارے ہاں آج بھی سب سے زیادہ قابل مباحث موضوعات سمجھے جاتے ہیں۔ یا پھر غیر مسلموں کو نیست و نابود کرنے کے طریقے ڈھونڈنے سے لیکر جن بھوتوں کے وجود یا کالے جادو کا توڑ ہماری تحقیق کا مرکز ہوتا ہے۔
پڑھے لکھے اشخاص سے لیکر جاہل افراد سب آپ کو انتہائی ایمانداری سے جنات کے وجود کالے جادو کا توڑ اور امریکہ و اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے کے گر بتاتے پائیں جاتے ہیں۔ یا پھر عقائد کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کمتر دکھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یعنی ہر غیر تخلیقی اور غیر کارآمد بحث و تحقیق پر وقت اور توانائیوں کو برباد کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جاتی۔ ہمارے ہاں زرا مباحث کا معیار دیکھئے کہ احمدی یا کوئی اور غیر مسلم چیف آف آرمی سٹاف بن سکتا ہے کہ نہیں خواجہ سراؤں کو ووٹ دینا جائز ہے کہ نہیں۔
شلوار ٹخنوں سے کتنی اوپر ہونی چائیے نماز ہاتھ کھول کر پڑھنی ہے یا بند کرکے۔ عورت کا جینز پہننا یا ہاف سلیو پہننا جائز ہے یا نہیں۔ امریکہ کا ساتھ دینے والا مسلمان ہے یا نہیں۔ اور اگر ان مباحث اور تحقیقات سے فرصت مل جائے تو باقی کا وقت جنات اور آسیب کے سائے ڈھونڈنے یا کسی پیر کے آستانے پر روحانی طاقتوں کے حصول میں ضائع کیا جاتا ہے۔ یعنی اجتماعی کاہلی اور ناکامی کو جنوں بھوتوں اقلیتوں اور کفار کے ذمے ڈال کر شکست کے نادیدہ احساس سے راہ فرار حاصل کی جاتی ہے۔
اگر معاشرتی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمارا معاشرہ تضاد اور منافقت کہ بھرپور تصویر پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ زمانہ قدیم کے قبائلی انسانوں کے معاشرے کی مانند بنیادی جبلتوں کا اظہار کرنا یا ان پر بات کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے البتہ چوری چھپے ان جبلیات کے اظہار یا بات کرنے پر کوئی ممانعت نہیں۔ ویسے تو لفاظی کیلیے انسانی حقوق کے چیمپیئن اور دنیا کے سب سے پرامن مذہب کے ٹھیکیدار اور دعوی دار لیکن درحقیقت اپنے اپنے فرقوں میں بٹے ہوئے ایسے حیوان جو مذہب اور خدا کے نام کو اپنی اپنی جھوٹی اناؤں کی تسکین کیلیے استعمال کرتے ہیں یا لمبے چوڑے منافع اور مفاد کیلیے۔
حد تو یہ ہےکہ ایسے افراد جنہیں امریکہ یا یورپ میں بس کر زندگی سنوارنے اور شعور کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے ان میں سے بھی زیادہ تر افراد امریکہ و یورپ کی ہی بخشی گئی آسائشات اور شخصی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انہی معاشروں پر کبھی عریانی و فحاشی اور کبھی عقائد و نظریات کو بنیاد بنا کر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ دراصل معاشروں کی ترقی کا دارومدار ان بنیادی قدروں سے ہوتا ہے جن کو تسلیم کرکے انسان کہلوانے کے قابل ہوا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے کہ ہندو کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ ہندو عیسائی کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ عیسائی مسلمان گھر میں پیدا ہونے والے زیادہ تر بچے عمومی طور پر اپنے اپنے عقیدوں پر ہی زندگی بسر کریں گے۔
اسی طرح مختلف ممالک کی شہریت یا پیدائشی لوگ اپنے وطن سے فطری لگاؤں رکھیں گے یا پھر وہ معاشرے جو زندگی کی کھوج اور جستجو میں ہم سے صدیوں آگے نکل چکے ہیں ان کیلئے یقینا جنس سیکس یا جنات کی باتیں غیر ضروری اور غیر اہم ہوں گی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں چونکہ مذہب قومیت اور روایات کا چورن خوب بکتا ہے اس لیئے آج بھی یہاں زمانہ قدیم کے اصول اور سوچ پائی جاتی ہے۔ اپنی اپنی حیثیت اور نصاب کے مطابق اقلیتوں کو دبایا جاتا ہے یا کمزوروں پر اپنی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔
کافر کافر کے نعرے فتوے یا مرتد و غداری کے سرٹیفیکیٹ بنانے میں ہم لوگ ماہر ہیں۔ کوئی بھی ہمارے فرسودہ خیالات کو چیلنج کرے وہ یا تو کافر ہوتا ہے یا مرتد یا پھر غدار۔ ڈاکٹر عبدالسلام ہمارا ہیرو نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ احمدی ہے اور ہماری نگاہوں میں کافر۔ البتہ ہالینڈ کی لیبارٹری سے ایٹمی فارمولہ چرانے والا ملک کی ایٹمی رازوں کو دوسرے ممالک کو بیچنے والا ہمارا ہیرو کہلواتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر عبدل لسلام کو پوری دنیا میں نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ نوبل پرائز کے علاوہ انہیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔
یہی صورتحال ملالہ یوسفزئی کی ہے جو ہمارے لیئے غدار اور جھوٹی ہےـ البتہ پوری دنیا کیلیے عزم و استقلال کی تصویر۔ ہم نے تو عبدالستار ایدھی صاحب تک کو نہیں چھوڑا اور پر آن اپنے اپنے عقیدے اور نظریات کی عینک سے انہیں پرکھتے ہوئے زندیق کافر اور نہ جانے کیا کیا قرار دے ڈالا۔ یہی حال بانی پاکستان جناح کا ہے جنہیں کافر اعظم قرار دیا گیا اور انہیں کافر قرار دینے والےہی اب ان کی کہی گئی باتوں کو تڑوڑ مڑوڑ کے انہیں ایک پکا مسلمان بنانے پر مصر دکھائی دیتے ہیں۔ منٹو عصمت چغتائی وغیرہ فحش نگار البتہ آمروں کے تلوے چاٹتے اور دوران ملازمت اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے والے قدرت الہ شہاب اور اور اوریا مقبول جان جیسے مصنوعی لوگ بابے اور روحانیت کے نام نہاد ٹھیکیدار۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم فطرت اور قدرت کے اصولوں سے ہٹ کر اپنی تصوراتی دنیا میں جینا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں آج تک نہ تو شعوری بلوغت آ سکی اور نہ ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا فن۔ دنیا میں برپا ہونے والی تبدیلیاں اگر عقائد اور نظریات سے متصادم ہوں تو ان تبدیلیوں اور اپنے عقائد و نظریات کو ایک لٹمس ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے جسے پرکھنے کے بعد کم سے کم اجتماعی سطح پر ان تبدیلیوں کو مان کر عقائد و نظریات کو انفرادی حیثیت میں قبول کر لیا جاتا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں آوا ہی الٹا ہے یہاں زبردستی اپنے اپنے عقائد و نظریات دوسروں پر تھونپے جاتے ہیں اور دنیا کی ترقی سے حسد میں مبتلا ہو کر بچوں کو دنیا کے بجائے موت کے بعد کی بندگی سے لگاؤ کا درس دیا جاتا ہے۔ لہٰذا معاشرے میں مولوی پیر عامل نجومی باوا نہ صرف قابل معتبر ٹھہرتے ہیں بلکہ مالی آسودگی بھی حاصل کرتے ہیں دوسری جانب استاد، سائنسدان یا تحقیقی و تخلیقی شعبہ جات سے وابستہ زیادہ ہتر افراد بمشکل اپنی زندگی کا پہیہ چلا پاتے ہیں۔
دنیا میں پہیہے کی ایجاد سے لیکر کمپیوٹر کی ایجاد ہو یا پیناڈال سے لیکر ایڈز و کینسر جیسے مہلک بیماریوں کی ریسرچ یا پھر چاند سے لیکرمریخ تک انسان کی رسائی آپ کوپرنیکس اور گلیلیو سے لیکر آئن سٹائن سٹیفن ہاکنگ یا کسی بھی تخلیقی محاذ پر موجود نام کو دیکھ لیجئے ان ناموں میں نہ تو کوئی مولوی نظر آئے گا نہ کوئی پیر نہ کوئی عامل اور نہ کوئی روحانی پیشوا۔ نہ ہی یہ نام آپ کو صدیوں پرانے عقائد و نظریات کے قیدی نظر آئیں گے۔
جس دن جنات کالے جادو روحانیت کی تلاش کے بجائے ہماری تجربہ گاہیں اور تحقیق گاہیں آباد ہوں گی اس دن ہم مہذب دنیا کی جانب بڑھنے کے سفر کا آغاز کرنے میں کامیاب ہونے پائیں گے۔ جب عقائد و نظریات کے بجائے ہم انسانوں کو ان کی صلاحیتوں اور قابلیت پر جانچنے اور تکریم دینے پر آمادہ ہو جائیں گے اس دن ہم بھی اپنے اپنےسٹیفن ہاکنگ اور آئن سٹائن کو جنم دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ وقت کا سفر تو جاری و ساری ہے لیکن جو معاشرے عقیدتوں عقیدوں اور رسومات کی قید میں جامد ہو جائیں تو وقت ان کا انتظار نہیں کرتا اور جمود کا شکار معاشرے وقت کی دھول میں باآسانی گم ہو جایا کرتے ہیں۔