1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. جناح ڈے پر جناح کے ہم سب سے چند سوالات

جناح ڈے پر جناح کے ہم سب سے چند سوالات

قدرت ہمیشہ بڑے کاموں کیلئے کچھ خاص شخصیات کو چنتی ہے ایسے لوگ جو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے بڑے سے بڑے طوفانوں سے لڑ جاتے ہیں۔ جو ایک ہجوم کو متحد کرکے ایک قوم بناتے ہیں اور پھر اس قوم کی شناخت کو پوری دنیا میں منواتے ہیں۔ محمد علی جناح کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے تمام تر مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وطن عزیز کی بنیاد رکھی۔

ایک طرف سامراج راج سے لڑائی اور دوسری جانب نہرو اور کانگریس سے سیاسی جنگ اور پھر اپنی ہی مذہبی جماعتوں کی مخالفت۔ لیکن جناح نے سب کو مات دیتے ہوئے ہم لوگوں کو ایک آزاد وطن کا تحفہ دیا۔ قائد اعظم کی سالگرہ پر جناح ڈے کے حوالے سے لاتعداد تقریبات منائیں جائیں گی ملک میں موجود تمام ٹی وی چینلز ریڈیو اور اخبارات میں جناح کو یاد کیا جائے گا اور خوب تعریفوں کے پل باندھیں جائیں گے۔

جناح کون تھے وہ کیسی شخصیت کے حامل تھے انہوں نے پاکستان بنانے کیلئے کیسی قربانیاں دیں۔ سب آپ کو بتاتے نظر آئیں گے۔ لیکن جناح نے کیا کہا تھا اور اگر وہ آج زندہ ہوتے یا ان کی رسائی ہم تک ممکن ہوتی تو وہ چند سوالات ہم سب سے ضرور پوچھتے۔ بلکہ عالم ارواح سے اکثر وہ لاتعداد سوالات ہم سے پوچھتے ہوں گے۔ جناح کا پہلا سوال ہم سب سے یہ ہے کہ ان کا بنایا پاکستان دولخت کیسے ہوا کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ جناح کا دوسرا سوال یقینا یہ ہوتا کہ میرے بنائے ہوئے ملک میں آزادی فکر نظریات اور عقائد پر پابندیاں کیوں۔

میں نے تو پاکستان بنتے ہی یہاں بسنے والے تمام افراد کو بتا دیا تھا کہ آپ خواہ مسلمان ہیں ہندو ہیں عیسائی جو بھی ہیں سب سے پہلے پاکستانی ہیں ریاست کو آپ کے مذہب یا عقیدے سے کوئی سروکار نہیں اور ریاست کی نظر میں آپ سب برابر ہیں۔ اتنی واضح گائیڈ لائن کے ہوتے ہوئے بھی ہم نے کیسے اقلیتوں اور دیگر عقائد کا جینا حرام کیا ہوا ہے یقینا جناح یہ سوال بھی کرتے ہوں گے۔ ایمان اتحاد تنظیم کا درس بار بار دیتے جناح نے ہمیشہ اس کا عملی نمونہ پیش کیا اور ساری زندگی عمل کا پیکر بنے نظر آئے اور وہ یہ سوال بھی کرتے ہوں گے کہ میری زندگی سے ہی کوئی سبق کیوں نہیں سیکھتے اور جس ایمان اتحاد تنظیم کا زکر میں بار بار کرتا تھا وہ کہاں ہے۔

پوری زندگی قانون کی پاسداری کرنے والے جناح یقینا ہم لوگوں کو جب سر عام قانون کی دھجیاں بکھیرتے دیکھتے ہوں گے تو ان پر روز قیامت ٹوٹتی ہوگی آئین کو روندنے والے آمروں کے دور اقتدار کے طویل عرصے کو دیکھ کر بھی جناح حیرت سے سوال پوچھتے ہوں گے کہ میں تو خود قانون دان تھا قانون اور آئین کو توڑنے کا سبق میں نے تو کبھی آپ سب کو نہیں دیا۔ سیاستدانوں کے شاہانہ پروٹوکول اور شاہی رہن سہن وہ بھی سرکاری خرچ پر یعنی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر۔

یقینا جناح کو انتہائی ناگوار گزرتا ہوگا اور وہ سوال پوچھتے ہیں کہ میرے سے زیادہ مقبول سیاسی رہنما کیا اس خطے میں کوئی اور ہے اور میں تو خود پاکستان کا پہلا گورنر جنرل تھا لیکن میں نے تو کبھی بھی سرکاری خزانے سے ایک پائی بھی اپنے اوپر نہیں خرچ کی۔ جناح صاحب کے دور میں ابتدائی ایام میں جب قومی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس ہوتا تھا تو عوام کے تمام نمائیندوں کو ہدایت تھی کہ وہ گھر سے کھا پی کر آیا کریں کیونکہ پاکستان کا سرکاری خزانہ اس اضافی بوجھ کاـمتحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم سب کو اقربا پروری اور میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر سفارش اور رشوت دیتے کام نکال کر بھی جناح پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے کوئی ایسا سبق آپ کو دیا یا کوئی ایک بھی مثال ایسی میری زندگی سے دی جا سکتی ہے۔

جناح جب علیل تھے اور کوئٹہ میں سرکاری ہسپتال میں زیر علاج تھے ان دنوں جس نرس نے ان کی تیمارداری کی جناح اس کے اپنے کام سے جزبے اور لگن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اس نرس سے بولے کہ بیٹی میں تمہارے لیئے کیا کر سکتا ہوں۔ نرس نے جواب دیا کہ میں پنجاب کی رہنے والی ہوں اگر آپ میرا تبادلہ یہاں بلوچستان سے پنجاب کروا دیں تو مجھے آسانی ہو جائے گی۔ جناح نے نرس کو معذرت خواہ لہجے میں جواب دیا کہ یہ کام تو محکمہ صحت والوں کا ہے وہ اس معاملے میں بے بس ہیں۔ یہ تھی اس عظیم انسان اور رہنما کی سوچ جو گورنر جنرل ہوتے بھی اپنے تابع محکموں کے کام میں بھی مداخلت نہیں کرتا تھا۔

جب جناح ہمارے حکمرانوں اور ایسٹیبلیشـمنٹ کو بیرونی طاقتوں کے آگے جھکتے دیکھتا ہوں گے تو یقینا سوال کرتے ہوں گے کہ کیا یہ آزادی میں نے اس لیئے حاصل کی تھی کہ مٹھی بھر افراد قوم کے ان داتا بن بیٹھیں اور انہی سامراجی قوتوں کے آگے جھکتے رہیں۔ جناح ایک دن کانفرنس میں شریک تھے جہاں گاندھی بھی موجود تھے۔ جناح کا چشمہ ان کے ہاتھ سے پھسل کر نیچے گر گیا۔ ساتھ بیٹھے گاندھی بہت خوش ہوئے اور بولے جناح آج تو تمہیں بھی جھکنا ہی پڑے گا۔

جناح مسکرائے اور جیب سے دوسرا چشمہ نکال کر پہنتے ہوئے بولے۔ کبھی نہیں۔ جناح جب تک زندہ ہے کسی کے پیروں میں نہیں جھکے گا۔ یہ تھا اس عظیم رہنما کی خود داری اور غیرت کا تصور۔ جناح یقینا حیرت سے یہ بھی پوچھتے ہوں گے کہ ہم لوگ اپنے ہیروز کی کہی ہوئی باتوں اور ان کے نظریات کو کتنی جلدی بھول جاتے ہیں۔ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلے میں اس ملک کی تاریخ کا مضحکہ خیز ترین الیشن لڑا تھا۔

مضحکہ خیز اس لیئے کہ فاطمہ جناح مادر ملت تھیں جناح کی بہن تھیں ظاہر ہے اگر ان سے شفاف مقابلہ کیا جاتا تو ایوب خان نے بری طرح ہار جانا تھا۔ لہازا ایک آدمی ایک ووٹ کے برعکس ملک میں مخصوص لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی اور اس میں بھی دھاندلی کرکے جناح کی بہن کو شکست دی گئی۔ جناح یقینا آج تک ہم سب سے اس سوال کے جواب کے منتظر ہوں گے کہ ان کی بہن کے ساتھ جب ایک غاصب دھاندلی و بے ایمانی کر رہا تھا تو ہم سب کو سانپ کیوں سونگھا ہوا تھا؟

جو مذہبی اور علاقائی جماعتیں اور وڈیرے پاکستان کے قیام کے خلاف تھے اور جناح کی کردار کشی کرکے انہیں پاکستان بنانے سے روکنا چاہتے تھے آج انہی کو اپنا نام استعمال کرتے دیکھ کر یقینا جناح ہم سے سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہم سب اتنی جلدی بھول گئے کہ جناح نے آزادی کی لڑائی محض گوروں کے خلاف نہیں بلکہ سٹیٹس کو کے حامی ان نام نہاد سیاسی و مذہبی ٹھیکیداروں اور قومیت و لسانیت کے علمبرداروں کے خلاف بھی لڑی تھی۔

اپنی تصاویر دفاتر پر آویزاں دیکھ کر جناح حیرت سے سوال پوچھتے ہوں گے کہ تصاویر میری لگا کر میرے ہی وطن کے مظلوموں کا استحصال کرتے ہوئے کچھ شرم نہیں آتی۔ فلاحی ریاست کے تصور کویکسر تبدیل کرکے محض چند بااثر افراد اور ادراوں کو فائدہ دینے والی ریاست کو دیکھ کر یقینا جناح رنجیدہ ہو جاتے ہوں گے اور سوال پوچھتے ہوں گے کہ میرے فلاحی ریاست کے تصور کو تہہ و تالاج کس نے کیا اور کس دن ہم ان کے سوچے گئے ریاست کے نظریئے کو اپنائیں گے۔

صوبائیت اور لسانی سیاست یا فرقہ وارانہ مذہبی تنظیموں کا زور دیکھ کر جناح یقینا سوال کرتے ہیں کہ میں نے تو صرف پاکستان بنایا اور اس میں صرف ایک ایک قوم تھی پاکستانی نہ کوئی پنجابی تھا نہ بلوچ نہ سندھی اور نہ پختون۔۔ اتحاد کے بجائے انتشار پھیلاتے ہوئے میری اس قوم کو زات پات لسانیت فرقوِں میں تقسیم کس نے کیا اور کس کے ایما پر یہ سارا کھیل رچایا گیا۔ جناح یہ بھی پوچھتے ہیں کہ پاکستان وجود میں آتے ہی انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی طے کر دی تھی اور واضح پیغام دے دیا تھا کہ پاکستان بین الاقوامی دنیا سے امن محبت اور برابری کی سطح پر تعلقات رکھے گا تو پھر ان کے پاکستان کو پڑوسی ملکوں کی روایتی اور پراکسی جنگوں میں کس نے جھونکا۔

یقینا بابائے قوم اس طرح کے لاتعداد سوالات ہم سے پوچھتے ہیں اور ہمیں یہ باور کروانے کی بارہا کوشش کرتے ہیں کہ جناح جیسی شخصیت تقریبات تقاریر یا تعریفی مضامین کی محتاج نہیں ہوتی کیونکہ دنیا کے نقشے کو تبدیل کرنے والے انسان صدیوں میں بھی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں لہزا ان کا نام عزت اور تکریم تو ہمیشہ قائم و دائم رہے گی لیکن ان کے بنائے گئے ملک کو ان کے دیئے گئے نظریات اور افکار کی روشنی میں بدل کر ہم ان کے کئی سوالات کے جواب ضرور دے سکتے ہیں۔

جو قومیں اپنے بانیوں اور محسنوں کے افکار اور نظریات کو فراموش کر دیتی ہیں وہ خود تاریخ کے اتحاس سے فراموش کر دی جاتی ہیں۔ جناح کے سوالات کے جواب دینا ہم سب کا فرض ہے اور ایک فلاحی ریاست کی جانب پہلا قدم بھی۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔