روایتی کہانیاں اکثر سننے پڑھنے یا دیکھنے میں دلچسپ لگتی ہیں۔ یہ کہانیاں انسان ہوش سنبھالنے سے لحد کی آغوش میں جانے تلک روایات رسومات عقائد کتب تحاریر ڈراموں فلموں میں دیکھتا سنتا اور پڑھتا ہے۔ انہی کہانیوں کو سن سن کر اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتا سنتا اور سمجھتا ہے بس وہی سچ ہے یوں دنیا میں بسنے والا ہر انسان اپنے اپنے حصے کا سچ لے کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوتا ہے۔ اپنے اپنے حصے کے اس سچ کا تعلق انسان کے عقیدوں اس کے اردگرد کے حالات اور اسـں معلومات سے قائم ہوتا ہے جو انسان ابلاغ کے ذرائع یا علم حاصل کرنے کے مختلف طریقوں سے حاصل کرتا ہے۔
انسان کو اچھے برے کی تمیز کرنا یا گناہ ثواب میں فرق کرنا معاشرتی اور مذہبی رسوم و رواج کے مطابق سکھایا جاتا ہے اور اس کی گھٹیچمیں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ ان معاشرتی اور مذہبی رسومات و عقائد پر کبھی بھی سوال نہیں کرنا۔ یوں دنیا میں بسنے والی اکثریت سوال اٹھانے اور سوچ جیسی نعمت سے محروم کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا میں رائج نظام اور ایک مخصوص سوچ کے مطابق انسان کو ڈھالنے کیلئے بے حد ضروری ہوتا ہے کہ وہ سوچنے سمجنے کی زیادہ صلاحیت نہ رکھتا ہو اور نہ ہی سوال اٹھانے یا کسی بھی مخصوص طبقہ فکر کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
یہ کلیہ صدیوں سے رائج ہے اور کامیاب بھی۔ عقائد روایات قومیت رنگ نسل نظریات کے نام پر دنیا میں بسنے والی کثیر انسانوں کی آبادیوں کے درمیان نفرت اور تعصب کی لکیر کھینچی جاتی ہے اور پھر اس نفرت تعصب کے بل پر انسانوں پر راج کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کلیے کے مقابلے میں ایک اور انسانی فطرت کا کلیہ بھی صدیوں سے رائج ہے۔ ہر دور میں انسانوں کی ایک تعداد ایسی بھی آتی ہے جو سوالات اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں جنہیں سوچ رکھنے کی نعمت حاصل ہوتی ہے اور جو روایات نظریات قومیت عقائد کی بیڑیوں کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ انسانوں کی یہ نسل انتہائی کمیاب اور نایاب ہوتی ہے۔
سقراط سے لیکر کاپرنیکس اور فرائیڈ برٹرنڈ رسل آئن سٹائن سے لیکر سٹیفن ہاکنگ تک یہ نایاب انسانی نسل سوچ سے محروم انسانی آبادی کا بوجھ بھی اپنے کاندھوں پر اٹھاتی ہے لیکن دنیا میں صدیوں سے قائم فرسودہ رسوم و روایات کو نہ صرف غلط ثابت کرتی ہے بلکہ بنی نوع انسان کو لفظ تخلیق اور تحقیق کے اصل معنی سے بھی روشناس کرواتی ہے۔ انسان فطری طور پر اپنے اپنے حصے کے سچ کے ساتھ تو جینا پسند کرتا ہے لیکن بھرپور سچائی کے ساتھ جینا زیادہ تر انسانوں کیلئے ناممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سٹیفن ہاکنگ کی ثابت کردہ ان تحقیقات اور باتوں کو فورا مان لیا جاتا ہے جو انسان کے اپنے اپنے بنیادی عقیدوں سے متصادم نہ ہوں۔
ان عقائد نظریات اور رسومات کی بیڑیوں میں جکڑے غلاموں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کسی بھی سمت ہانکنا بے حد آسان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی کے اعلی ترین مقام پر پہنچنے کے باوجود بھی دنیا آج بھی زمانہ قدیم اور پتھر کے دور کی مانند جنگ و جدل اور قتال پر چلتی ہے۔ کہیں مذہب کی بنیاد پر قتل و غارت ہوتی ہے تو کہیں قومیت اور نسلی تعصب کی بنا پر۔ کہیں خوف کو بنیاد بنا کر جنگوں کو بیچا جاتا ہے اور کہیں انسانیت کو بچانے نام پر۔ حیرت انگیز طور پر شام سے لیکر افغانستان اور امریکہ سے لیکر اسرائیل تک مرنے والے تمام انسان عام ہوتے ہیں۔
خواص جو جنگیں مسلط کرتے ہیں ہمیشہ یا اکثر محفوظ رہتے ہیں۔ روس پر راج کرتا پیوٹن ہو جرمنی میں راج کرتی انجیلا مارکل یا وائٹ ہاؤسـمیں بیٹھا ٹعمپ ایران کی سپریم کونسل میں بیٹھے آمر ہوں یا سعودیہ کے آمر بادشاہ ان لوگوں کو نہ تو کوئی آنچ آتی ہے اور نہ جنگوں کی تباہ کاریاں انہیں کوئی گزند پہچانے پاتی ہیں۔ داعش القائدہ یا نیوکنز یہ تمام گروہ انہی چند افراد کے دم پر قائم رہتے ہیں اور عام انسان درندوں کی مانند ایک دوسرے کو زات پات قومیت اور مذہب کے نام پر چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے سے بے مطلب نفرت کی آگ انسانوں کو اس قدر اندھا کر دیتی ہے کہ وہ ایک عام سا نقطہ بھی نہیں سمجھ پاتے کہ یہ دور اور آگے آنے والا دور سروایول آف دی فٹسٹ کا ہے۔
دنیا میں اب زندہ رہنے کیلئے صرف انسان ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اپنی انسانی صلاحیتوں اور قابلیت کو سو فیصد استعمال کرکے ہی زندہ رہا جا سکتا ہے۔ یہ صلاحیتیں اور قابلیت جو زیادہ سے زیادہ استعمال کرتا ہے وہ اقتدار کا منصب سنبھال لیتا ہے۔ مذہب سے لیکر سیاست اور دیگر میدانوں میں اس گروہ کا قبضہ ہو جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ انسان زومبی کی طرح مذہب عقیدوں نظریات اور قومیت کا زہر پی کر رینگتے رہتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت جینیاتی سائنس یا جینیٹیکل انجینئرنگ میں انتہائی سبک رفتاری سے کام جاری ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے کمپیوٹر اور مشینوں کو انسانوں پر سبقت دلوا دی ہے۔ آپ اپنے ہونے والے بچے کی آنکھوں کے رنگ سے لیکر اس کی کئی عادات تک مرضی سے چن سکتے ہیں اور یہ سب جینیاتی سائنس کی ترقی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ جلد ہی اس سائنس میں وہ سٹیج بھی آنے والی ہے جہاں پیدا ہونے والے بچوں کی سوچ سے لیکر ان کی قابلیت ذہانت اور صلاحیتوں کو بھی اپنی مرضی سے چنا جا سکے گا۔ یعنی پھر دنیا میں صرف قابل یا اسمارٹ لوگ ہی بچیں گے اور مشینوں اور ٹیکنالوجی کی موجودگی میں کم صلاحیتوں یا سوچ و سمجھ سے عاری انسانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔
سوچ کے دھارے کو زمانہ جدید سے مطابقت کروانے والے معاشرے اور قومیں ہی شاید پھر کائنات میں اپنا وجود رکھنے پائیں گی۔ وہ معاشرے جو سائنس کو آج بھی اپنے فرسودہ عقائد و نظریات کی وجہ سے ماننے سے انکاری ہیں ان کا نام و نشان بھی آنے والے وقت میں نہیں بچے گا۔ ایٹم بم اسلحہ اور پرانے وقتوں کی کہانیاں نہ تو ان معاشروں کو بچا پائی ہیں اور نہ بچا پائیں گی۔ سٹیفن ہاکنگ کہتا ہے دنیا میں زندگی زیادہ سے زیادہ ایک ہزار برس اور ممکن ہے اس کے بعد انسان کائنات کے دوسرے سیاروں پر جا بسے گا۔ اور یہ ہزار برس بھی اس صورت میں ممکن ہیں اگر دنیا میں کوئی ایٹمی یا کیمیائی جنگ نہ چھڑے اور خلاف معمول کوئی ماحولیاتی تبدیلی رونما نہ ہو۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ دوسرے سہاروں میں انسانی زندگی کے پنپ پانے سے متعلق تحقیق اور دریافت پر خرچ ہوتا ہے۔ دنیامیں موجود وسائل اور آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے ہی باہمی رضامندی سے ان معاشروں پر جنگیں تھوپی جاتی ہیں جو آج کے دور کے قابل معاشروں کی تعریف پر نہ تو پورا اترتے ہیں اور نہ ہی سوچ سمجھ کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم لوگ اور ہمارا معاشرہ کہاں کھڑا ہے غالبا ہم سب کو آئینہ دیکھ کر باآسانی معلوم ہو سکتا ہے۔ کہانیاں اب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ نہ تو چاند پر کوئی بڑھیا بیٹھی چرخہ بنتی ہے اور نہ ہی کوہ قاف میں جن اور پریاں رہتی ہیں۔
انسان چاند سے لیکر مارز تک رسائی حاصل کر چکا اور کینسر کے علاج سے لیکر اعضا کی پیوند کاری اور کلوننگ تک دریافت کر چکا۔ ایسے میں محمد بن قاسم محمود غزنوی یا دیگر بیرونی حملہ آوروں کی جھوٹی کہانیاں بچوں کو سنانے اور پڑھانے سے نہ تو مستقبل سنور سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں بقا پائی جا سکتی ہے۔ کہانیاں تبدیل کرنے کی فوری ضروت ہمارے جیسے معاشروں کو ہے اور ساتھ میں سوال اٹھانے اور سوچ کی نعمت سے آنے والی نسلوں کو روشناس کروانے کی۔ سوچ سے عاری افراد اور معاشروں کی اب آنے والے وقت میں پوری کائنات میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔