ڈاکٹر مسیحا کہلاتے ہیں جو کسی بھی انسان کو بنا کسی رنگ نسل مذہب کی تفریق کے درد سے نجات دلاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں آپ کو یہ پیشہ سب سے معزز اور قابل ستائش نظر آئے گا۔ وطن عزیز میں جہاں لاتعداد مسائل ہیں ان میں سے ایک صحت کا بھی ہے۔ بنیادی ضروریات اور بقا کی جنگ میں حالات سے لڑتے افراد کیلیئے بیماری اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کسی بھی مصیبت سے کم نہیں ہوتے۔ حکومت لوگوں کو بنیادی صحت کی سہولیات پہنچانے میں بھی ابھی تک کامیاب نہیں اس لیئے سرکاری ہسپتالوں میں عوام کا جم غفیر صحت کے مسائل کے حل کے لیئے رخ کرتا نظر آتا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز جن میں سے زیادہ تر میڈیکل کالجز میں حکومت پاکستان کے ہی خرچ سے ڈاکٹر بن پاتے ہیں جس طریقے سے مریضوں کے ساتھ برتاو کرتے ہیں اس سے لگتا یوں ہے کہ جیسے وہ کوئی جیلر ہیں اور مریض بیچارے کسی جرم کی پاداش میں کوئی سزا بھگتنے ان کے پاس آئے ہیں۔ ایک ڈاکٹر بنانے میں حکومت پاکستان کا تقریبا 26 لاکھ روپیہ خرچ ہوتا ہے اور یہ رقم اسی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ان ڈاکٹرز پر خرچ کی جاتی ہے۔ جو ڈاکٹر بننے کے بعد اس پیشے کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے محض پیسہ کمانے پر ساری توجہ مرکوز کر دیتے ہیں جن عام آدمیوں کو ہسپتالوں میں حقارت کے ساتھ دھتکارا جاتا ہے یہ تمام ڈاکٹر بابو انہی لوگوں کے دیئے ہوئے ٹیکس سے اپنے مسند پر فائز ہوتے ہیں۔
سینئر ڈاکٹر حضرات تو محض حاضری کے لیئے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں اور وہاں بھی مریضوں کو اپنے نجی کلینک میں چیک آپ کروانے کا مشورہ دکھائی دیتے ہیں۔ نئے ڈاکٹر حضرات تو خیر ان سے بھی آگے ہیں ایمرجینسی تک کے حساس شعبے میں یا تو موبائل سے چپکے گیمز اور میسج کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں یا پھر اس بدتمیزی سے مریضوں سے پیش آتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
پچھلے چند سالوں میں ان لوگوں نے اپنی تنظیم بھی قائم کر لی ہے اور اپنی تنخواہوں اور مراعات میں منہ مانگا اضافہ بھی کروا لیا۔ لیکن اپنے رویے کو بدلنے میں ناکام نظر آئے۔ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیئے مریضوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر ہڑتالیں کرنے والے یہ ڈاکٹر نہ جانے کس منہ سے اپنے آپ سے آنکھیں ملاتے ہوں گے۔ نجی کلینک میں بیٹھے یہ لوگ ادوایات فروش کمپنوں اور ٹیسٹ کی لیبارٹریوں سے کمیشن کھا کر مریضوں کو ان کے ہتھے چڑھا کر معلوم نہیں کہ چین سے سوتے کیسے ہیں۔ پنجاب میں جتنی سیاست اور مفاد پرستی کا مظاہرہ ان حضرات نے اپنی تنظیم ینگ ڈاکٹرز کے نام پر کیا وہ انتہائی قابل مزمت ہے۔
شہباز شریف نے نرمی اور سختی کو اپناتے ہوئے ان کو رام تو کر لیا لیکن یہ ڈاکٹرز نرمی کو دیکھ کر سر چڑھ گئے اور آئے دن اب سیاستدانوں کی مانند اپنے مطالبات منظور کروانے کیلئے کبھی احتجاجی مظاہرے اور کبھی دھرنے دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ان ڈاکٹرز کی خاموشی ہے جو ایمانداری سے کام بھی کرتے ہیں اور اس پیشے کے وقار کو جانتے ہوئے واقعی مسیحا کہلانے کے لائق ہیں کم سے کم ایسے حضرات کو اپنے پیشے میں چھپی کالی بھیڑوں کی نشاندہی بھی کرنی چاہیئے اور مزمت بھی۔
ڈاکٹر بن جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کسی قسم کے احتساب سے بالاتر ہو گئے یا کوئی آپ کے عیبوں پر تنقید نہیں کر سکتا۔ نہ ہی سرکاری ہسپتال مفت میں چلتے ہیں عوام کے پیسے سے ڈاکٹرز کو تنخواہیں دی جاتی ہیں اور عوامی نمائیندے اس پیسے کی ایک ایک پائی کا حساب لینے کا حق رکھتے ہیں۔ تنظیمیں بلیک میلنگ کے لیئے نہیں بلکہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیئے بنائی جاتی ہیں۔ آپ لوگ وقت پر ہسپتال نہ آہیں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مریضوں کی جان سے کھیلیں اور پھر اپنے آپ کو اپنی تنظیم کی چھتری کے ذریعے محفوظ بھی کریں یہ ناقابل قبول ہے اور یہ رویہ کسی مسیحا کا نہیں بلکہ ایک قصائی کا ہوتا ہے جو وہ زبج ہونے والے جانوروں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔
حکومت پنجاب نے ایسے ڈاکٹرز کے خلاف کاروائی کا عندیہ دے کر ایک احسن قدم اٹھایا ہے اور جس طریقے سے انہوں نے ڈاکٹرز کی تنظیم کے غلط مطالبات کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ مہذب ممالک اور معاشروں میں ڈاکٹرز کو جو بے حد عزت و تکریم دی جاتی ہے وہ ان کے فرائض کی انجام دہی پر دی جاتی ہے اور اگر کوئی ڈاکٹر اپنے پیشہ وارانہ امور میں زرا سی بھی غفلت کا شکار ہو تو اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے اور اسے قانونی کاروائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر غفلت و بے اعتنائی برتنے کے بعد بھی کسی بھی قسم کے قانونی دائرے میں نہیں آتے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں اور مرکـزی حکومت ڈاکٹرز کی غلط پیشہ وارانہ عادات و اطوار اور لالچ کے خلاف ایک مربوط قسم کی قانون سازی کریں۔
سب سے پہلے کسی بھی صورت میں ڈاکٹرز کی ہڑتال پر پابندی عائد کرنی چاہییے تا کہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو بچایا جا سکے۔ اسی طرح سے ڈاکٹرز اور ادوایات کمپنیوں کے درمیان کمیشن لے کر مخصوص دوائیاں مریضوں کو استعمال کروانے کے جرم کو بھی روکنا چاہیئے۔ ڈاکٹرز کے ذرائع آمدن پر مکمل چیک رکھنا چاہیے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کو سب سے پہلے تمیز سے پیش آنے اور مریضوں کی دلجوئی کرنے کی ٹریننگ دلوانی چاہئے اور وہیں ہسپتال میں ایک شکایت کاونٹر بھی بنانا چاہیے جہاں مریض کسی بھی ڈاکٹر کے خلاف شکایت درج کروائے اور فوری طور پر اس کی شکایت کو دور کیا جائے۔
سرکاری ہسپتالوں میں خصوصا ایمرجینسی میں ڈاکٹروں کے موبائل فون استعمال کرنے پر مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے تا کہ وہ سارا دھیان مریضوں پر مرکوز کر سکیں۔ ہم سب کو بھی بطور شہری اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیئے سرکاری ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹرز ہوں یا نجی کلینک میں پیسے کی ہوس میں مبتلا ڈاکٹرز ان سب کی اپنے پیشے سے کوتاہی کی صورت میں ان کا سماجی بائیکاٹ کیجئے۔ ان کو احساس دلایے کہ مسیحائی خدا کی ایک صفت ہے اور یہ صفت محض ڈاکٹری کا لائسنس مل جانے سے عطا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیئے دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھنا پڑتا ہے۔
شہباز شریف صاحب پنجاب میں اگر ان ڈاکٹرز کی اصلاح کرنے پائے تو یقینا نہ صرف یہ عوام کے فاہدے میں ہوگا بلکہ ان کی گڈ گورننس کی جانب ایک اور قدم بھی۔ امید ہے شہباز شریف ان تمام مسیحاؤں کے روپ میں چھپے عطایوں کو درست کرنے میں کامیاب ہو جاییں گے۔ ڈاکٹر حضرات سے درخواست ہے کہ پیسہ تو کوٹھے اور چکلے چلانے والے بھی کماتے ہیں لیکن محض پیسہ ہی سب کچھ ہوتا تو پھر کوٹھے چلانے والے عزت و وقار کی نگاہوں سے دیکھے جاتے۔
آپ اس پیشے کو مقدس رہنے دیجئے اسے ایک دھندا مت بنائیے۔ اور بالفرض اگر بہت پیسہ کمانے کی لالچ سے مجبور بھی ہیں تو اپنے پیشے کی حرمت کی لاج کا خیال رکھنا بھی مت بھولیے۔ انسانی زندگی کو بچانا اور درد سے نجات دینا پیسے یا کسی بھی آلائش سے بڑھ کر تسکین دہ بھی ہے اور انسانیت کی معراج بھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں آئے غریب لوگ یا سفید پوش حضرات آپ کے خوش اخلاق رویے سے ویسے ہی آدھے تندرست ہو جائیں گے یقین نہ آئے تو آزمائش شرط ہے۔ ازراے کرم مسیحا بننے کی کوشش کیجئے نہ کہ قصائی۔