سردیوں کا موسم ہے اور دھند نے تقریباً پورے وطن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس موسمی دھند کے علاوہ ایک نظر نہ آنے والی دھند کی دبیز اور طویل لہر بھی موجود ہے جس کے پیچھے وہ قاتل ہیں جو ہمیشہ نامعلوم رہتے ہیں۔ یہ دھند وطن عزیز پر یوں تو ستر برسوں سے چھائ ہوئ ہے لیکن مشرف دور سے یہ ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے۔ ملک کا کوئ صوبہ کوئ شہر بھی ایسا، نہیں ہے جہاں سے افراد لاپتہ نہ ہوئے ہوں یا جہاں نامعلوم افراد کے ہاتھوں مرنے والے مقتولین کی قبریں نہ ہوں۔ بیانیوں، خود ساختہ عقائد اور گلے سڑے رسوم و رواج سے انحراف کرنے اور ان کے خلاف صدائے احتجاج کا مطلب نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونا یا پھر خود نامعلوم افراد کی فہرست میں اپنے نام کا اضافہ کروانے کے مترادف ہے۔ اختلاف رائے کو سنگین جرم گردانتے ہوئے اور ترقی یافتہ نظریات کو وطن عزیز کی نظریاتی اور مذہبی اساس کے خلاف خطرہ قرار دیتے ہوئے ان نظریات کا پرچار کرنے والوں کیلئے حیات کو سخت اور موت کو ارزاں بنا دیا گیا ہے۔ تشدد، عدم برداشت اور جہالت کا پرچارکرنے والوں کیلئے آسائشات بھی موجود ہیں اور ریاستی سرپرستی بھی حاضر ہے۔
آپ کبھی بھی کسی بنیاد پرست کسی شدت پسند یا کسی جاہلیت کا پرچار کرنے والے کو نہ تونامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا ہوتا دیکھیں گے اور نہ ہی کسی چوراہے سے ان کی تشدد زدہ لاش برآمد ہونے کا واقعہ دیکھیں گے۔ پروفیسر حسن عارف کی لاش بھی کراچی شہر کے ایک کونے میں کھڑی ان کی گاڑی سے برآمد ہوئ۔ پروفیسر صاحب کی ایک سیاسی جماعت سے وابستگی کے عمل سے اختلافات کئیے جا سکتے ہیں لیکن ان کو قتل کرنے کی گھناؤنی حرکت کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پروفیسر حسن عارف علم کی تدریس سے منسلک رہے، ان کی تشدد زدہ لاش کا برآمد ہونا اور دوسری جانب احسان الہ احسان جیسے درندے کا سرکاری مہمان کے طور پر آرام و سکون سے رہنا صاف بتاتا ہے کہ اس معاشرے میں بندوق کا وزن علم اور آگہی پر بھاری ہے۔ ہم کس قدر وحشیانہ اور تنگ نظر سماج میں جی رہے ہیں اس کا اندازہ بہتر سالہ بزرگ پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش کو دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ وحشت بربریت اور دہشت کے سائے تلے کس طرح ایک ہیجان انگیز، شدت پسند اور شعوری طور پر ناکارہ معاشرہ تیار کیا جاتا ہے اس کا کلیہ بلکہ عملی تصویر وطن عزیز کے حالات کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ ایک پروفیسر کو مارنے والے ریاستی خود ساختہ بیانئیے کے اجارہ دار ہیں یا پھر انہی ریاستی اجارہ داروں کی پیدا کردہ سیاسی قوت ہے، اس حقیقت کو جاننے سے کوئ خاص فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ دونوں ہی صورتوں میں پیغام عوام الناس تک پہنچایا جا چکا ہے کہ یا تو چپ چاپ سر خم کر کے ان تصورات عقاِئد اور بیانیوں کو مانو جو ریاست کی جانب سے مسلط کئیے جاتے ہیں یا پھر مقتل گاہوں اور عقوبت خانوں کی رونق بڑھاتے ہوئے لاپتہ ہو جاو یا مارے جاو۔
چلئے آج ایک معلم ایک استاد کی باری تھی کل کو ہماری باری ہو گی۔ ہم بھی مقتل گاہوں اور عقوبت خانوں کی زینت بنائے جائیں گے اور پھر ایک دن آئے گا شاید جب اس معاشرے میں فقط ہاں میں ہاں ملانے والے افراد ہی رہ جائیں گے۔ ڈریے اس وقت سے جب اس وطن میں مولوی خادم حسین، احسان الہ احسان، اوریا مقبول جان اور زید حامد جیسے لوگ ہی باقی بچیں گے، ریاست اور معاشرے کی ترجمانی کریں گے۔ شاید ہمارے ناخداوں کو ایسی ہی بستی درکار ہے جہاں قط الرجال عام ہو اور جہاں سوچ رکھنے والے افراد کے بجائے ایسے طوطے بستے ہوں جو کھوکھلے، پرفریب و جھوٹے وعدوں کی چوری کھاتے ہوئے محض رٹی رٹائ باتوں کو دہرا کر ناخداوں کے ذوق سماعت اور شوق نرگسیت کی تسکین کا سامان فراہم کرتے رہیں۔ عین اپنی خواہشات کے مطابق ناخداوں نے چند ایک کو چھوڑ کر ساری بستی میں چوری کھا کر پنجرے میں مقید رہ کر خوش رہنے والے طوطے ہی پروان چڑھائے ہیں جو ناخداوں کی بتائ ہوئ حکایات اور تعلیمات پر من و عن ایمان لاتے ہوئے اس کے دہرانے کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ پھر بھی نہ جانے کیوں محض چند اختلاف رائے کی بلند ہوتی ہوِئ صداوں سے گھبرا کر یہ ناخدا انہیں اپنی اجارہ داری کیلئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ریاستوں اور معاشروں کو گم شدہ افراد اور لاشوں کے تحفے دیکر ناک کی سیدھ میں جانوروں کی مانند ہانک کر آپ پستی کہ جانب تو سفر کر سکتے ہیں بلندیوں کی جانب نہیں۔ اخلاقی طور پر گراوٹ کا شکار اور فکری زبوں حال معاشرے کو معلموں کی ضرورت ہوا کرتی ہے تا کہ علم و آگہی کی کونپلیں پنپنے پائیں جو جہالت کے اندھیروں کو دور کرسکیں۔
اگر ایک معلم ریاست کیلئے محض اس جواز پر خطرہ تھا کہ اس کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے تھا تو پھر ایم کیو ایم لندن کو جنم دینے والے ضیاالحق اور اس کی پرورش کرنے والے سابق جرنیل پرویز مشرف کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ضیاالحق کو علامتی سزا اور پرویز مشرف کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں کیا امر مانع ہے؟ مولوی خادم حسین رضوی، عصمت الہ معاویہ، مولوی سمیع الحق اور احسان الہ احسان جیسے شدت پسندوں سے کیا بذات خود ریاست کے اپنے تشخص، اور اپنی بقا کو خطرات لاحق نہیں ہیں ? کیا ہی انتہائ درجے کا ظلم ہے کہ نہتے شہری اختلاف رائے کے جرم میں بے دردی سے مار دیے جائیں جبکہ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو سر عام معافی دے دی جائے یا ان کی پشت پر تھپکی دی جائے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک بزرگ شہری کو تشدد کر کے ہلاک کیا گیا اور سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز سے بیان دلوا دیا گیا کہ پروفیسر حسن ظفر عارف کے جسم پر کوئ تشدد کے نشانات موجود نہیں تھے۔ سوشل میڈیا پر اس کے برعکس پروفیسر صاحب کی تشدد زدہ لاش کی تصاویر اور وڈیوز جاری ہوئیں اور حقیقت منظر عام پر آئ کہ اس بزرگ معلم کو بدترین ٹارچر کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ یہ اکیسویں صدی ہے اور اب سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے میں صرف چند لمحات درکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر اپنے ہی شہریوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جائے گا اور ماورائے عدالت قتل کیا جائے گا تو شاید اپنے معاشرے میں جبر کے دم پر تسلط تو برقرار رکھے جانے کے امکانات تو روشن رہیں گے لیکن معاشرہ کسی بھی طور صحت مندانہ انداز میں پھلنے پھولنے نہیں پائے گا۔ خوف کی فضا میں پروان چڑھنے والے معاشرے دراصل خود اپنے آپ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
رشتے چاہے انفرادی ہوں یا اجتماعی، خوف اور طاقت کے دم پر قائم نہیں رہ پاتے۔ یہ حقیقت سقوط ڈھاکہ سے اچھی طرح عیاں ہو گئ تھی۔ لیکن آفرین ہے اس سوچ پر جو بہتر برس کے ایک بزرگ شہری کو ماورائے عدالت قتل کرنے کو اپنے بیانیوں کا تحفظ سمجھتی ہے۔ اگر آپ کا بیانیہ سچا ہے تو اسے دنیا کا کوئآ شخص نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی سچے اور مضبوط بیانئے کو اپنا آپ منوانے کیلئے بندوق کی طاقت کا استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمال کی طاقت ہے جو اپنے ہی شہریوں اور اپنے ہی باشندوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے، اور کمال کا معاشرہ ہے جو ویسے تو فلسطین سے لیکر کشمیر تک انسانی حقوق کی پامالیوں پر دہائیاں دیتا ہے لیکن اپنے ہی وطن کے جبری گمشدہ افراد کے معاملے پر آنکھین بند کر لیتا ہے اور پروفیسر حسن عارف جیسے بزرگ شہریوں کے ماورائے عدالت قتل پر اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ آفرین ہے اس معاشرے پر جہاں زینب کی موت کو وقت گزاری اور تسکین انا کیلئے استعمال کرتے ہوئے اس کی تصاویر کو آویزاں کر کے ٹسوے بہائے جائیں اور سیاستدانوں کی بہن بیٹیوں کے ساتھ اس طرح کے حیوانی واقعات ہونے کی دعائیں مانگی جائیں ان کو جیل بھجوانے کے مطالبات کئیے لیکن ایک آٹھ ماہ کی شیر خوار بچی کو زندہ جلانے کے واقعے پر صرف اس لئیے خاموشی، سادھ لی جائے کہ اس کا، عقیدہ ہمارے عقیدے سے متصادم تھا، ایک معلم کے قتل پر چپ سادھ لی جائے اور اس کے قتل کو وطن دشمنی کےکھاتے میں ڈال دیا جائے۔ مسخ شدہ لاشوں کے ملنے پر آنکھیں موندھ لی جائیں اور گمشدہ افراد کے معاملے پر آنکھیں پھیرتے ہوئے یہ سوچا جائے کہ چلو کوئ بات نہیں ہم تو بچ گئے۔ کمال منافقت اور ڈھٹائ کی اس بلند ترین سطح پر فائز معاشرے میں بسنے والے "طوطوں " اور ان کے ناخداوں کومبارک کہ لاشوں کے اعداد و شمار میں ایک اور اضافہ ہو گیا۔ حضور والی کا اقبال سلامت رہنا چائیے انسانوں کا کیا ہے ان کا جینا مرنا تو لگا رہتا ہے۔ رہی بات پروفیسر حسن عارف اور ان جیسے لاتعداد تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی تو ان سب کیلئے محسن نقوی نے کہا تھا کہ " میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہو گا۔ ۔ "۔