پانامہ لیکس کے ممکنہ نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک انصاف نے ڈان لیکس کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ تحریک انصاف نے خود لیا یا کہیں اور سے اس بارے میں ڈکٹیشن آئی عقلمندوں کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔ پانامہ لیکس میں عربی شہزادے کا خط صرف ایک جھلک تھی اور آگے ضرورت پڑنے پر انتہائی اہم دوست ممالک بھی اس طرح کے دستاویزات کے ساتھ میدان میں آ سکتے ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پانامہ لیکس کے ذریعے مائنس نواز شریف کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اب لے دے کے ڈان لیکس ہی ایک ایسا اشو بچتا ہے جس کو لے کر پس پشت قوتوں کی شہ پر عدالت کے زریعے نواز شریف کو مائنس کیا جا سکتا ہے۔
جناب عمران نیازی صاحب اور ان کی جماعت کی بچگانہ سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا ہر چند مشکل نہیں کہ ڈان لیکس کا انجام بھی نواز شریف کی سیاسی فتح پر ہی اختتام کو پہنچے گا۔ غالبا عمران خان کی ڈوریں ہلانے والے ہاتھ جان چکے ہیں کہ نواز شریف کو مائنس کرنا ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں نواز شریف کو ٹف ٹائم دینے کیلئے تمام چلے ہوئے سیاسی کارتوسوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ کسی بھی طرح اگلے عام انتخابات میں ان کا راستہ روکا جائے۔
پانامہ لیکس کے مسئلے میں سب سے بڑی غلطی جو عمران خان کے آقاؤں سے ہوئی وہ نواز شریف کے کارڈز کو نہ سمجھ پانا تھا۔ پانامہ لیکس کا کیس اگر عدالت کے بجائے صرف میڈیا اور اسمبلی میں رہتا تو نواز شریف کو اگلے عام انتخابات میں اس بوجھ کے ساتھ میدان میں اترنا پڑتا اور کم سے کم پنجاب کے شہری علاقوں میں ان کو انتخابی نقصان اٹھانا پڑتا۔ لیکن عمران خان کی جلد بازی اور پس پشت قوتوں کی غلط منصوبہ بندی نے اس بات کا اچھی طرح سے اہتمام کر دیا ہے کہ نواز شریف کو پانامہ لیکس میں کلین چٹ مل جائے۔
عدلیہ میں ہونے والی اب تک کی کاروائی کے مطابق نواز شریف کو کلین چٹ ملنے کے روشن امکانات ہیں اور 2018 کے عام انتخابات میں اگر مسلم لیگ نون پانامہ کے بوجھ کے بنا انتخابات لڑتی ہے تو اگلے پانچ سال بھی اس کو حکومت کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ عمران خان نے سیاسی طور پر نواز شریف کو جتنا مستحکم کیا ہے اس کو دیکھ کر کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت شاید نواز شریف کو وزارت عظمی کی کرسی پر اگلے انتخابات میں بھی براجمان دیکھنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب ڈان لیکس کا معاملہ بھی اگر عدالت میں زیر سماعت آتا ہے تو نواز شریف کو ایک اور کلین چٹ مل جائے گی۔ ڈان لیکس کے معاملے کو لیکر ویسے بھی دفاعی اسٹیبلیشمنٹ اب زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتی اور پرویز رشید کی قربانی کو غالبا قبول کر لیا گیا ہے۔ یعنی عمران خان کو اب سنجیدگی سے سیاست کے میدان کو چھوڑنے کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ سیاست کے میدان میں صرف جزبات اور ضد کے ساتھ نہ تو کوئی بازی پلٹی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو مات دی جا سکتی ہے۔ عمران خان کی وزیراعظم بننے کی ضد نے ان کی جماعت کو سیاسی طور پر جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی اب شاید ممکن نہ ہو۔
دوسری جانب نواز شریف اب ملکی تاریخ کے مضبوط ترین وزیر اعظم بنتے جا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے چند ٹی وی چینلوں اور حوالدار صحافیوں کے سوا اس وقت نواز شریف کو کسی خاص اپوزیشن کا سامنا نہیں۔ اگلے انتخابات میں پس پشت قوتیں جن چلے ہوئے کاتوسوں کو نواز شریف کے مد مقابل لا رہی ہیں وہ شاید کراچی اور سندھ کی حد تک تو کچھ کامیابی حاصل کرنے پائیں لیکن پنجاب بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے ان کا کامیاب ہونا تقریبا ناممکن ہے۔ اور شاید بہت سے تجزیہ نگار اس بات سے ناآشنا ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں نواز شریف کراچی کی ایک بڑی جماعت کے دھڑے اور سندھ کے چند بڑے ناموں اور قوم پرستوں کو ساتھ ملا کر سندھ میں بھی انٹری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کو یہی تشویش لاحق ہے کہ اگر سندھ میں بھی نواز شریف بمقابلہ پس پشت قوتوں کی سیاست کا آغاز ہوگیا تو ان کی سندھ میں بلا شرکت غیرے حکمرانی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی پانامہ لیکس کے مدعے کو حل کرنے کے بجائے سیاسی طور پر اسے نواز شریف کے خلاف استعمال کرنا چاہتی تھی تا کہ اگلے عام انتخابات میں نواز شریف کی سیاسی ساکھ کو متاثر کیا جا سکے۔ لیکن جناب عمران خان اور پس ہشت قوتوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے پیپلز پارٹی ایسا کرنے میں ناکام ہوگئی جبکہ عمران خان کی ڈوریاں ہلانے والوں نے تحریک انصاف کی دو نومبر کے لاک ڈاؤن کی ناکام کال کو دیکھتے ہوئے عمران خان سے سر سے دشت شفقت ہٹانا ضروری خیال کیا۔ آخر کو طاقت کی بساط پر کوئی بھی نہ تو مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔
یہ وہ نقطہ ہے جو عمران خان ابتدا ہی سے سمجنے سے قاصر رہے۔ چنانچہ اب جلد ہی وہ اپنی جگہ نئے مہرے میدان میں اترتے دیکھیں گے اور شاید اس وقت انہیں ہمارے جیسے تجزیہ نگاروں کی تنقید میں چھپی تلخ سیاسی حقیقت کا ادراک ہو جائے لیکن بدقسمتی سے اب بہت دیر ہو چکی۔ اور سیاست میں درست وقت پر درست فیصلے نہ کر پانے والے اصغر خان کی طرح تاریخ کے ان گنت صفحات میں گم ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ 2013 کے بعد سے آج تک کے سیاسی حالات کا بغور جائزہ لیں تو یہ حقیقت باآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ مسلم لیگ نون نے ابتدا ہی سے تحریک انصاف کی احمقانہ سیاست کو بھانپ لیا تھا اور جان بوجھ کر حکمران جماعت نے عمران خان کو اپنے اوپر تابڑ توڑ وار کرنے کے مواقع فراہم کیئے۔ اس کی پہلی بنیادی وجہ عمران خان کی پشت پر موجود طاقتوں کے خلاف ایک بیانیہ تشکیل دینا تھا جو حکمران جماعت نے انتہائی کامیابی کے ساتھ تشکیل دیا اور دوسری وجہ سیاست کے میدان میں اصل مسائل سے توجہ ہٹانا تھی جس میں حکمران جماعت مکمل طور پر کامیاب ہوئی۔
2014 سے لیکر آج کی تاریخ تک صرف تحریک انصاف بمقابلہ حکمران جماعت کے بارے میں ہی لکھا بولا اور دکھایا جاتا رہا اور حکمران جماعت یہ بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئی کہ پس پشت قوتوں کی شہ پر عمران خان ان کی حکومت کو نہ تو کام کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی عوامی فلاح کےمنصوبوں کی تکمیل۔ یعنی ایک تیر سے دو شکار۔ ایک طرف عمران خان اور پس پشت قوتوں کے خلاف اپنا ووٹ بینک نواز شریف نے مضبوط رکھا اور دوسری جانب 2018 کے انتخابات جیتنے کیلئے راہ بھی ہموار کر لی۔ اب اگلے انتخابات میں عوام سے کیئے گئے بہت سے وعدوں کو پورا نہ کرنے کی ذمہ داری بآسانی تحریک انصاف اور پس پشت قوتوں پر ڈال کر نہ صرف ووٹروں کی ہمدردی مسلم لیگ نون کو حاصل ہو جائے گی بلکہ باآسانی انتخابی فتح بھی۔
سیاست میں دشمن کو کمزورتو کیا جاتا ہے لیکن اسے مارنے کے بجائے زندہ رکھا جاتا ہے کیونکہ کمزور سیاسی حریف زندہ رہے تو ہر وقت سیاسی فائدے کا باعث بنتا ہے اور نواز شریف نے عمران خان کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ پس پشت قوتوں کو بھی شاید اب چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی نواز شریف سے کچھ سمجھوتے کرنے پڑیں گے جن کی جھلک انے والے کچھ دنوں اور پھر مہینوِں میں بھی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ مائنس ون کا فارمولا جو نواز شریف کو مائنس کرنے کیلئے لایا گیا تھا فی الحال تو مائنس ٹو بن چکا ہے اور مائنس ٹو کا یہ فارمولا نواز شریف مخالف قوتوں پر لاگو ہوگیا ہے۔