شہر اقتدار میں افواہوں کا بازار پھر سے گرم ہو چکا ہے۔ بیوروکریسی، سیاسی اڑانیں بھرنے والے پنچھی ریٹارڈ افسران جو گدھ کی مانند سیاسی حکومتوں کے قتل کے بعد اپنے اپنے مفادات کو ماس کی مانند کھانے اور حاصل کرنے کی عادت سے مجبور ہیں ان کی آنکھوں میں پھر سے چمک بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ تماش بینی کی علت کا شکار عام افراد بھی چہروں کے بدلنے کے اس کھیل میں ایک نیا موڑ چاہتے ہیں۔ طاہر القادری اور عمران خان کے پاس اس بار احتجاج اور سیاست چمکانے کیلئے ایک معصوم بچی زینب کی تازہ لاش موجود ہے۔ ماڈل ٹاون سانحے کی لاشیں بھی بنیاد ہیں۔ آصف زرداری کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ ایسٹیبلیشمنٹ کی گڈ بکس میں آ جائیں اور سندھ کو اپنی جماعت کیلئے محفوظ رکھیں۔
17 جنوری سے شروع ہونے والا یہ احتجاج پنجاب کو فتح کر کے پنجاب حکومت گراتے ہوئے وفاقی حکومت کی بساط بھی لپیٹنا چاہتا ہے۔ یہ تینوں حضرات اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر گئیں اور عام انتخابات مقرر کردہ وقت پر ہوئے تو پنجاب سے مسلم لیگ نون کو شکست دینا ناممکن ہو گا۔ پنجاب سے نواز شریف کی جماعت کی جیت کا مطلب ہے کہ اگلے عام انتخابات کے بعد وفاق میں بھی حکومت پھر سے مسلم لیگ نون بنائے گی۔ عمران خان اور طاہر القادری یہ بات جانتے ہیں کہ انتخابات کے عمل سے گزر کر وہ یا ان کی جماعت کبھی بھی وفاق یا پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے۔ آصف زرداری بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ملکی سیاست میں ان کی جماعت کا کردار محض سندھ تک ہی محدود ہو چکا ہے اس لئیے ایسٹیبلیشمنٹ سے ایک اچھی ڈیل کے خواہاں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بار مسلم لیگ نون کی حکومت کا تختہ الٹا جا سکے گا اور قبل از وقت انتخابات منعقد کروا لئیے جائیں گے ؟
زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب یا وفاق میں حکومت کا تختہ کسی بھی ماورائے آئین اقدام کے بغیر نہیں الٹا جا سکتا۔ چنانچہ عمران خان اور طاہر القادری کو احتجاج کے دوران مزید لاشیں درکار ہوں گی جن کو بنیاد بنا کر امن و امان کی صورتحال کو بگاڑا جا سکے اور تیسری قوت کو میدان میں آنے کا جواز فراہم کر کے نظام کی بساط لپیٹنے کا جواز مہیا کیا جا سکے۔ آصف زرداری اس معاملے میں کس حد تک ان دونوں حضرات کا ساتھ دیتے ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ دوسری جانب حکمران جماعت کو اس اجتجاج سے ایک ایسے طریقے سے نبٹنا ضروری ہے جس کے نتیجے میں نہ عمران خان اور طاہر القادری کو دوران احتجاج لاشیں مل سکیں اور نہ ہی احتجاج کا دائرہ پورے ملک میں پھیلنے پائے۔ حکمران جماعت اس وقت تمام سرویز کے مطابق اگلے عام انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ یعنی نواز شریف اور ان کی جماعت کے پاس کھونے کو سب کچھ ہے جبکہ طاہر القادری آصف، زرداری اور عمران خان کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ طاقت کی اس بساط پر عمران خان اور طاہر القادری جیسے مہروں کو استعمال کرنے والی اصل قوت کا ارادہ کیا ہے اس کا اندازہ لگانا ہرچند بھی مشکل نہیں ہے۔ ملک میں عام انتخابات کے زریعے اپنی کٹھ پتلیوں کو اقتدار کے مسند تک پہنچانے کا کھیل اب ممکن نہیں رہا۔ اس لئیے برسوں پرانے احتساب کے چورن کو بیچ کر پہلے تو عوام کے ذہنوں کو پراپیگنڈہ سے بھرا گیا اور پھر آہستہ آہستہ خاموش طریقے سے ذرائع ابلاغ کا سہارا لیتے ہوئے جمہوریت سے عوام کو متنفر کروایا گیا۔
اس پراپیگینڈے کا کمال ہے کہ احتساب کے نام پر چیختے چلاتے ہجوم کو یہ توفیق ہی نہیں ہوتی کہ وہ وطن عزیز کی ان قوتوں سے جو تین دہائیاں براہ راست اور باقی تین دہائیاں بلا واسطہ حکمرانی کرتی رہیں ان سے یہ پوچھنے کی جرات کر سکیں کہ اقتدار کی سانپ سیڑھی کا کھیل رچانے والی اصل قوت تو آپ ہیں۔ آپ نے بھی کبھی احتساب کے کٹہرے میں آنا ہے یا نہیں ؟ خیر چونکہ سیاستدان تنقید کرنے کیلئے ایک سافٹ ٹارگٹ ہوتے ہیں اور ان پر تنقید کرنے سے جان گنوانے یا گمشدہ ہونے کا خطرہ بھی لاحق، نہیں ہوتا اس لئیے ٹی، وی، اینکرز سے لیکر دانشور اور، عام آدمی سب ان کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں چوراہوں پر لٹکانے کی باتیں کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے نادیدہ قوتوں نے احتجاج، دھرنوں احتساب کے کھوکھلے ہتھکنڈوں کے ذریعے وطن میں مشتعل ہجوم کے جتھوں کا املاک کو نقصان پہنچانے، مخالفین کو جان سے مارنے والی عادات کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے اہم ستونوں مقننہ اور عدلیہ کو کمزور کرنے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ اختیارات اور طاقت کے حصول کی اس جنگ میں نقصان نواز شریف کا نہیں بلکہ وطن عزیز کا ہوا ہے۔ کل سے جاری ہونے والا احتجاج بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے جہاں طاہر القادری، عمران خان اور، آصف زرداری لاشوں پر سیاست چمکاتے ہوئےحکومت کو گرا کر اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں جبکہ پس پشت قوتیں ان مہروں کے دم پر نواز شریف سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
2014 سے جاری اس کھیل میں عمران خان طاہر القادری اور ایسٹیبلیشمنٹ نے دھرنوں احتجاج، عدلیہ، میڈیا حتی کہ مذہبی کارڈ کا بھی استعمال کیا لیکن نہ تو مسلم لیگ نون کی حکومت کو گھر بھیجا سکا اور نہ ہی نواز شریف کو عدلیہ کے ذریعے شکار کرنے سے ان کی عوامی مقبولیت میں کمی لائی جا سکی۔ ملکی سیاسی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سیاسی انجینرنگ کے ذریعے نہ تو شیخ مجیب کو شکست دی جا سکی اور نہ ہی ذوالفقار، بھٹو کو سیاسی طور پر ختم کیا جا سکا لیکن نا دیدہ قوتیں اس تاریخ سے سبق سیکھنے کو ہرگز بھی تیار نہیں ہیں۔ لاشوں کو بنیاد بنا کر احتجاجوں کودوام بخشنے کی یہ نئی ریت بھی انتہائی خطرناک ہے اور انسانی جانوں کی بے توقیری کا باعث بھی ہے۔ سیاسی محاذ کی بات کی جائے تو یہ عمران خان اور آصف علی زرداری کی ناکامی کا عملی ثبوت ہے کہ انہیں اقتدار کے مسند تک رسائی کیلئے طاہر القادری جیسی غیر سیاسی شخصیت اور ایسٹیبلیشمنٹ کی بیساکھیوں کا سہارا لینے کی ضرورت پیش آ گئ ہے۔
دوسری جانب نواز شریف کی سیاسی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اس احتجاج اور مظاہروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کسی بھی صورتحال کے نتیجے میں وہ نہ تو وفاق اور نہ ہی پنجاب میں اپنی جماعت کی حکومت کو ختم کریں گے۔ ماورائے آئین اقدام کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر کے مارشل لا لگانے کا بھی امکان بے حد معدوم ہے۔ ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ لانے کا خیال دل کے بہلانے کیلئے تو اچھا ہے لیکن عملی طور پر اس کے نفاذ میں قانونی و سیاسی پیچیدگیاں ہیں۔ بالفرض اگر ان دونوں اقدامات میں سے کوئی اقدام اٹھا بھی لیا جائے تو پھر نواز شریف کا بیانیہ اور موقف درست ثابت ہو جائے گا اور پنجاب سے بلند ہوتی صدائے احتجاج کو دبانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ دونوں ہی صورتوں میں اس کا سیاسی فائدہ نواز شریف اور ان کی جماعت کو حاصل ہو گا۔ اس لڑائی میں طاہر القادری عمران خان اور، آصف، زرداری وہ مہرے ہیں جن کے حصے میں طاقت کی شطرنج میں ایسٹیبلیشمنٹ کیلئے قربان ہونے کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ آتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔