1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. ننھے فرشتے‎

ننھے فرشتے‎

حالات و واقعات اور سانحات معاشروں اور افراد کی زندگی میں ہر دم تعمیر و تخریب کا باعث بنتے ییں۔ کچھ واقعات خوشگوار ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر معاشرے پر ایک خوشگوار اثر چھوڑتے ہیں اسی طرح چند واقعات ناخوشگوار یا انندوہناک ہوتے ہیں اور معاشروں پر اپنے منفی اثرات صدیوں تک کے لیئے چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک المناک سانحہ دو سال قبل 16 دسمبر کو پیش آیا تھا جب پشاور میں آرمی پبلک سکول کے 145 بچوں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ جس بے رحمی سے معصوم کلیوں کو چن چن کر حیوان نما دہشت گردوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا اس کی مزمت کیلئے کوئی بھی الفاظ کافی نہیں ہو سکتے۔ وہ بچے جو پھولوں کی طرح نازک اور نفرتوں کی دنیا سے بالکل انجان تھے جنہیں یہ بھی پتا نہیں کہ ان کے معصوم وجودوں کو کیوں خون سے رنگا گیا۔

ملکی تاریخ بلکہ جدید انسانی تاریخ میں بھی شاید ہی اس بربریت کی کوئی مثال ملنا ممکن ہو۔ بزدل انتہا پرست دہشت گردوں نے بچوں کو اپنے مزموم مقاصد کا نشانہ بنا کر یہ واضح کر دیا کہ دہشت اور انتہا پسندی نہ صرف اندھی ہوتی ہے بلکہ یہ انسان کو ایک حیوان میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ایک برس ہونے کو آیا لیکن دل میں آج بھی اس سانحے کی پھانس چبھتی ہے۔ نہ جانے ان شہید بچوں کے والدین پر کیا بیتتی ہوگی اور پتہ نہیں وہ کونسی دلیل ہے جس سے وہ اپنے آپ کو مطمئن کر پاتے ہوں گے۔ اس انسانیت سوز واقعے نے آج بھی پورے معاشرے پر اپنے اثرات چھوڑے ہوئے ہیں۔

آج بھی جب ہمارے بچے سکول جاتے ہیں تو ایک نا معلوم سا خوف اور ایک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے وہ واپس بھی آ پائیں گے کہیں دہشت گردی کا شکار تو نہیں ہو جائیں گے۔ اے پی ایس میں شہید ہونے والے سارے بچوں کی لاشوں کا بوجھ اگر آپ محسوس کریں تو ہم سب کے شانوں پر ہے۔ ایسا بوجھ جس سے رہائی پانا ناممکن ہے۔ ان بچوں کے والدین کی خالی آنکھیں اور سونے آنگن آج بھی نیشنل ایکشن پلان اور دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات پر سوالیہ نشان ہیں۔ یقینا اے پی ایس کے بچوں نے اپنی ننھی منی جانیں قربان کرکے کم سے کم پالیسی سازوں کو اچھے اور برے دہشت گردوں کی تفریق ختم کرنے پر مجبور کیا اور افوج نے ایک بھرپور کاروائی دہشت گردوں کے خلاف بھی کی لیکن شدت پسندانہ سوچ اور طالبان جیسی دہشت گرد تنظیموں سے ہمدردی رکھنے والے افراد آج بھی اس معاشرے کے ہر شعبے میں موجود ہیں۔

جب تک یہ افراد اور ایسی سوچ کے حامل لوگ معاشرے میں موجود ہیں ان بچوں کو خراج عقیدت پیش کرنا اور ان کی یاد میں تقریبات منعقد کرنا بےمقصد اور بے معنی ہیں۔ اگر اے پی ایس کے ان بچوں کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے تو اب پالیسی سازوں کو نفرت اور تشدد پر مبنی سوچ کے خاتمے کیلیے بھی ہنگامی بنیادوں پر ایک آپریشن شروع کرنا ہوگا۔ یہ بچے جو اس سانحے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ ہمارے جہادی بنانے کی پالیسی اور شدت پسندی کو قبول کرنے کی بزدلانہ سوچ کا نتیجہ ہیں۔ ایسی سوچ جس نے خود اپنا گھر جلا ڈالا اور جو آج بھی خاموشی سے پنپ رہی ہے۔ اس سوچ کو پیدا کرنا بند کیجئے ورنہ ہم معصوم بچوں کی لاشیں اٹھاتے ہی رہیں گے۔

ارباب اختیار اگر سیاست اور کرسی کی جنگ سے نکل کر ان معصوم بچوں کی قربانی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک مربوط قسم کی حکمت عملی ملک سے شدت پسندانہ سوچ اور نظریات کے خاتمے کیلئے بنائیں اور اس پر من و عن عمل کریں تو یقینا ان بچوں کی روحوں کو بھی سکون نصیب ہوگا۔ میں جانتا ہوں اے پی ایس اسکول کے بچوں کی یاد میں ملک بھر میں تقریبات منعقد ہوگیں جن میں ان بچوں کی قربانی کا زور و شور سے زکر کیا جائے گا۔ ملک بھر میں ان کی یاد میں موم بتیاں بھی جلائی جائیں گی ہر سال کی طرح شاید کوئی نیا گانا بھی ان کی یاد میں ریلیز کیا جائے گا۔

وہ لوگ اور جماعتیں جو جہاد کے نام پر اب بھی شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں وہ بھی ان بچوں کے غم میں نڈھال نظر آئیں گے اور پھر اس کے بعد زندگی اسی ڈگر پر چل پڑے گی اگلے ہی دن سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں گے۔ زندگی اگر کہیں جامد رہے گی تو وہ ان بچوں کے والدین کے ہاں ہوگی جہاں وقت ایک سال پہلے کی یادوں میں ٹھہرا ہی رہے گا وہ یادیں جب یہ بچے ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے اپنے اپنے گھروں کے آنگن میں ایک ہنگامہ اٹھا رکھتے تھے۔ بچپن کے دنوں کی وہ شرارتیں اور ہنگامے جو زندگی کی رمق تصور ہوتے ہیں۔ بھلا کونسا میڈل اور کونسی ایسی تقریب ہے جس کی وجہ سے ان معصوم بچوں کی ماوں کو قرار آ جائے گا کیونکہ دنیا میں آج تک نہ تو کوئی ایسا میڈل بنا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا لفظ تخلیق ہو پایا ہے جو ایک ماں سے اس کے بچے کے چھن جانے کے دکھ کرب اور غم کا مداوا کر سکے۔

ان بچوں کو خراج عقیدت اس معاشرے سے نفرت اور شدت پسندی کے اندھیروں کو ہی مٹا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کو سب سے بڑی مدد اس خاموش تائید کے زریعے حاصل ہوتی ہے جو معاشرے میں بسنے والے افراد کبھی امریکہ دشمنی اور کبھی جہاد کے نام پر ان کو دیتے ہیں۔ اس خاموش تائید کو ختم کرنے کے لیئے اس سال ان بچوں کی برسی کے موقع پر حکومت کو ایک نظریاتی آپریشن لانچ کرنا چاہئے۔ اور معاشرے میں شدت پسندی اور نفرت پھیلاتے افراد کو بھی بلا تفریق دہشت گردی کے زمرے میں گردانتے ہوئے کڑی سے کڑی سزائیں دینے کا عمل شروع کرنا چاہیے۔

نصاب میں اے پی ایس سکول کے بچوں سے متعلق ایک باب بھی شامل کرنا چاہیے جس میں آنے والی نسلوں کو بتایا جائے کہ کس طرح سینکڑوں پھول بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے اور اپنی ننھی منی جانوں کا نذرانہ دے کر اس کنفیوزڈ ملک کو کم سے کم دہشت گردوں کے خلاف ایک واضح حکمت عملی بنانے پر مجبور کر گئے۔ ان بچوں کو تو ہم نے کھو دیا لیکن اپنے مزید بچوں کو ہم کھونے سے بچ سکتے ہیں اگر ہم سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام شدت پسند اور جہادی تنظیموں پر مکمل پابندی لگا دیں۔ ایسے گروہ یا افراد جو ان تنظیموں سے زرا سی بھی ہمدردی رکھتے ہیں ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے اور ان پر گہری نظر رکھی جائے۔ نفرت اور تشدد پر اکسانے والے ناول نصاب میں شامل باب ان سب کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے۔ دنیا پر بزور اسلحہ غالب آنے کے خیالات اور نظریات کو مکمل طور پر ریاستی سطح پر اقدامات کے زریعے ختم کیا جائے۔

مدارس کو رجسٹر کرکے جدید علوم کی تعلیم دی جائے اور ان کا مرکزی تعلیمی بورڈز کے ساتھ الحاق کیا جائے۔ سیاسی مصلحتوں کے تابع حکومت اور دیگر جماعتیں یہ اصلاحات لاتے ہوئے ہمیشہ خوف کا شکار رہتی ہیں کیونکہ مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار ان اصلاحات کو فورا دین کے خلاف قرار دیتے ہوئے مذہب کا کارڈ استعمال کرتے ہیں اور عام آدمی یا مسلمان کے جزبات مشتعل ہونے کا نعرہ مارتے ایسی ایسی دھمکیاں دیتے ہیں کہ فورا سیاسی جماعتیں دبک کر موقف سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ اب یہ گھناونا کھیل بند ہونا چاھیے۔

اگر کسی کے جزبات اصلاحات کے نام پر مشتعل ہوتے ہیں تو ہونے دیجیئے کیونکہ ہم مزید بچوں کو دہشت گردی کے بھینٹ نہیں چڑھا سکتے۔ کیا آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کے جزبات کا کسی نے سوچا۔ کیا وہ مشتعل نہیں ہوئے کیا ان پر قیامت نہیں ٹوٹی۔ مذہب کے نام پر دکانیں چمکانے والے اور جہاد کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں ہم اپنے بچوں کا گلہ نہیں گھونٹ سکتے۔

مقتدر قوتوں کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں اپنا اقتدار عزیز ہے یا وطن کے کڑوڑوں بچوں کا کل۔ کیا ہم پھر سے اے پی ایس سکول جیسے سانحے کا انتظار کریں گے اور پھر یہ سیدھی سی بات سمجھیں گے کہ شدت پسندی کی سوچ کے خاتمے کیلئے یہ تمام ریفارمز اشد ضروری ہیں۔ معاشرے اور قومیں امن محبت اور تحقیق کے بل پر زندہ بھی رہتے ہیں اور آگے بھی بڑھتے ہیں جن معاشروں میں دنیا بھر سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہو اور قتل و غارت اور جنگوں کو کارنامہ بتایا جاتا ہو وہاں پھر مولوی فضل اللہ جیسے بھیڑیے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔

اے پی ایس کے شہید بچے اسـں معاشرے میں مذہبی تعصب جہاد کی انڈسٹری اور شدت پسند جماعتوں کو فروغ دینے والے تمام پالیسی سازوں کی ناکام اور کھوکھلی پالیسیوں کا واضح ثبوت ہیں۔ یہ بچے آپ سے اور مجھ سے بھی سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارا خون بھی آپ سب کو یہ نہیں بتا سکا کہ بچوں کا مستقبل علم کی روشنی اور تمام تر تعصب سے پاک محبت کرنے والے معاشروں میں محفوظ ہوتا ہےآپ سب بھی ان بچوں کو اگر خراج تحسین پیش کرنا چاہیں تو اپنے اپنے بچوں کو انسانیت سے محبت کا درس اور شدت پسندی کی کسی بھی شکل سے دور رکھ کر یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں۔

دسمبر اپنی سردی اور بوجھل شاموں کی وجہ سے ویسے ہی اداسی رکھتا ہے لیکن ان بچوں کی اس کرب ناک سانحے کی یاد اس یخ بستہ موسم میں ایک روح تک سرایت کرنے والے درد اور خون کو منجمند کر دینے والی شدید ٹھنڈ کا باعث بنتی ہے۔ آئیے مل کر اپنے عمل سے ان بچوں کو خراج تحسین پیش کریں اور کوشش کریں کہ نا صرف وطن عزیز بلکہ پوری دنیا میں اس قسم کا بھیانک واقعہ دوبارہ نہ ہونے پائے۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔