1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. سقوط ڈھاکہ کا سبق‎

سقوط ڈھاکہ کا سبق‎

کچھ زخم قوموں کی تاریخ میں ایک بدنما داغ کی مانند ہوتے ہیں جو ہمیشہ یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ تاریخ کبھی بھی ناانصافی اور جبر کو معاف نہیں کرتی۔ سقوط ڈھاکہ بھی ایک ایسا ہی زخم ہے جب ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس وطن کو دو لخت کر دیا۔ بنگلہ دیش کیوں بنا اکہتر کی جنگ میں کیا ہوا سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کیا ہیں ان تمام بنیادی سوالات کو ہم نے جھوٹ کی سیاہی سے چھپانے کی کوشش کی۔

حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو دہایوں عوام سے چھپا کر رکھا گیا اور سقوط ڈھاکہ کی عجیب و غریب توجیہات نصاب میں ناولوں اور کتابوں میں اور میڈیا کے زریعے پیش کرکے سیاستدانوں اور بھارتی سازشوں پر ملبہ گراتے ہوئے ہم نے آنکھیں بند کر لیں۔ مشرقی پاکستان کو ہم نے اسی دن جدا کر دیا تھا جب ہم نے انہیں کالے کلوٹے جاہل گنوار قرار دیتے ہوئے تمام شعبوں میں ان کی حق تلفی شروع کر دی۔ بنگالی ہم سے زیادہ زہین تھے اور احساس محرومی کے ساتھ غلاموں کی طرح جینے کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔

شیخ مجیب جسے ہمارے ہاں غدار قرار دیا جاتا ہے ان لوگوں میں سے تھا جو تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے وہ خود قائد اعظم کا خطاب سننے کئی کئی سو کوس پیدل یا سائیکل پر سفر کرکے آتا تھا۔ ایسا اچانک کیا ہوا کہ قیام پاکستان کی تحریک میں پیش پیش شخص اچانک پاکستان سے اتنا متنفر ہوگیا۔

جناح کے جہان فانی سے کوچ کرنے کے بعد ان کے سوچے گئے پاکستان کو بھی ہائی جیک کر لیا گیا۔ محلاتی سازشوں کے وہ جال بنے گئے کہ پاکستان نے اپنے ابتدائی سالوں میں ہی متعدد وزیر اعظم آتے جاتے دیکھے۔ پھر پہلے سکندر مرزا نے ایمرجینسی ایوب خان اور جنرل یحی نے مارشل لا کی آڑ میں ملک کی جڑوں کو اتنا کھوکھلا کر دیا کہ بالآخر اسے اپنا ایک حصہ گنوانا پڑا۔

1970 کے عام انتخابات کے نتائج بہت واضح تھے مشرقی پاکستان نے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو تقریبا تمام نشستیں پلیٹ میں رکھ کر دیں اور یہ وہاں کے ووٹرز کا فیصلہ تھا مغربی پاکستان کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف۔ بھٹو مغربی پاکستان سے انتخابات میں کامیاب ضرور ہوئے تھے لیکن ان کی جماعت کے پاس حکومت بنانے کی اکثریت نہیں تھی۔ شیخ مجیب ہماری ایسٹیبلیشمنٹ کو کانٹے کی طرح کھٹکھٹا تھا چنانچہ اس کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ایسٹیبلیشمنٹ نے بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کی ناکام کوشش کی اور اس کے نتیجے میں شیخ مجیب نے علحدگی کا اعلان کر دیا۔

اس بغاوت کو کچلنے کیلئے مشرقی پاکستان میں فوجیں اتاریں گئیں لیکن مشرقی پاکستان میں بسنے والوں نے شیخ مجیب کا ساتھ دیا ہندوستان نے مکتی باہنی کی تحریک کے زریعے اور پھر جنگ کے میدان میں مشرقی پاکستان کا ساتھ دیا یوں ہم مشرقی پاکستان میں جنگ ہارنے کے بعد ہندوستان کی افواج کے آگے سرینڈر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 90 ہزار پاکستانی فوجی ہندوستان کی قید میں چلے گئے اور پاکستانی فوج کی اس جنگ میں سرینڈر کرنے کی تکلیف دہ تقریب کو ہندوستان نے پوری دنیا میں نشر کیا۔ ذوالفقار بھٹو نے بعد میں تمام پاکستانی فوجیوں کو ہندوستان کی قید سے چھڑایا لیکن اس کے لیئے انہیں جینیوا معاہدہ ہندوستان کے ساتھ کرنا پڑا۔

آپ کو نصاب میں یا کتابوں میں اس معاہدے کا زکر شازر و نادر ہی ملے گا اور تفصیلات تو کبھی بھی نہیں ملیں گی۔ کیونکہ اس معاہدے میں پاکستان نے بہت سی ایسی شقوں کو تسلیم کیا تھا جنکا تعلق بھارت میں کشمیر کی موجودگی کے حوالے سے تھا۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے جنرل یحی اور بھٹو کو اس سانحے کا مرتکب ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ سانحہ چند کرداروں کے باعاث پیش نہیں آیا بلکہ ایک غاصب سوچ اور جھوٹے نظریات کی وجہ سے پیش آیا۔

وہ سوچ جس نے جناح کی فلاحی ریاست کو ایک سیکیورٹی ریاست میں تبدیل کر دیا وہ سوچ جس نے جناح کے پاکستان کو مذہبی شدت پسندی کی آگ میں جھونکتے ہوئے ری پبلک آف پاکستان سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا ڈالا۔ قوی امید تھی کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ سوچ اور اس کا خالق ادارہ دقطاریں کبھی بھی قومی نظریات اور معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس نکلی۔

سقوط ڈھاکہ کے کسی مجرم کو سزا نہ سنائی گئی بھٹو کو تختہ دار پر پہنچا کر پھر سے فوج نے مارشل لا لگایا اور ضیاالحق کی صورت میں ایسا بدترین آمر بچے کھچے پاکستان پر قابض ہوا جس نے اس ملک کے کونے کونے میں شدت پسندی تعصب اور نفرت کی آگ پہنچا دی۔ پھر جب اس کے آقاوں نے اسے موت کے گھاٹ اتارا اور لولی لنگڑی جمہوریت وجود میں آئی تو اسے بھی نہ پنپنے دیا گیا اور کارگل جیسی بیوقفانہ جنگی حماقت کے بعد مشرف جیسا آمر اس وطن پر قابض ہوگیا۔

سیاستدان ان تمام واقعات میں یقینا قصوروار ہیں لیکن ان تمام واقعات کے مرکزی مجرم دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے جرنیلز اور آمر ہیں جنہیں توپوں کی سلامیوں میں رخصت کیا جاتا ہے اور ملک کے جھنڈے میں تمام اعزازات کے ساتھ دفن بھی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا کارنامہ کیا ہے۔ کون سی جنگی فتوحات ہمیں حاصل ہوئیں ہیں ہمیں سوال کرنے کا موقع دیا جائے۔ بدقسمتی سے آج بھی سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہ سیکھتے ہوئے ہم بلوچستان کو بھی ڈھاکہ بنائے بیٹھے ہیں۔

مشرقی پاکستان کے سب سے بڑے سبق دو تھے۔ ایک طاقت کے زور پر کبھی بھی وطن میں بسنے والے لوگوں کو دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی بزور طاقت انہیں زبردستی متحد رکھا جا سکتا ہے۔ دوسرا اہم سبق یہ تھا کہ حکومت کرنا سیاستدانوں کا کام ہے فوج کے ادارے کا نہیں۔ افسوس ہم نے ان میں سے کسی بھی سبق کو سیکھنے سے انکار کر دیا۔ اور قومی مفاد کی ایک ایسی اصطلاح روشناس کروائی جس کی آڑ میں سچ بولنے والوں تحقیق کرنے والوں اور سوال اٹھانے والوں کو غدار قرار دیکر قصہ ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ قومی وقار اقتدار پر براہ راست یا بلاواسطہ قبضے کے لیئے خوب استعمال کیا جاتا ہے۔

اس قومی وقار کے گرد ہم نے ایک قومی سوچ اور نظریہ تیار کر رکھا ہے جو اپنے عیبوں سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے محض ایک دفاعی نیریٹو تیار کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ جس کے تحت سوال اٹھانے والے اور تحقیق کی راہوں پر گامزن دماغ تیار ہو ہی نہیں پاتے۔ اور اس کے نام پر اس ملک کے بسنے والے کڑوڑوں افراد کے ساتھ مزاق کیا جاتا ہے۔

بجائے تعلیم کے فروغ اور غربت کے خاتمے کے ملکی بجٹ کا حصہ اسلحہ خریدنے بنانے اور جنگی جنون میں عوام کو مبتلا کرنے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ قومی وقار سوال پوچھنے پر اور اپنا حق مانگنے پر تو مجروح ہوتا ہے لیکن ڈرون حملوں میں ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی پر اس پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

سانحہ ایبٹ آباد میں امریکہ فوج کے آپریشن سے بھی یہ وقار مجروح نہیں ہوتا اور نہ ہی کارگل جیسے واقعے سے اس قومی وقار پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ اپنے ہی ملک کی سویلین اور جمہوری حکومتوں کا تخت الٹنے پر بھی یہ قومی وقار محفوظ رہتا ہے اور سقوط ڈھاکہ پر بھی اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ غداری اور محب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بنا کر تقسیم کرتا ہے اور تاریخ کو مسخ کرکے جھوٹی جنگی فتوحات بچوں کے ذہنوں کو ازبر کرواتا ہے۔

جب تک ہم اس قومی مفاد اور وقار کے گرد قائم دفاعی ریاست کے تصور کو تبدیل کرکے جناح کی فلاحی ریاست والے تصور کی طرف واپس نہیں آئیں گے ہم یونہی بھٹکتے رہیں گے۔ جب تک اپنی ہی سرزمین کو فتح کرنے کی عادت ختم نہیں ہوگی سقوط ڈھاکہ جیسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔ جب تک دفاع کے نام پر ڈی ایچ اے اوکاڑہ ملٹری فارمز دلیہ اور کھاد بنانے کی فیکٹریاں مالیاتی ادارے کاروباری ادارے ختم کرکے صرف سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں سر انجام دی جائے گی تب تک بنگالیوں جیسا احساس محرومی بلوچ اور پختون قوم پرستوں میں پروان چڑھتا ہی رہے گا۔

جب تک جنرل یحی جنرل نیازی جیسے جنگی مجرم اور ضیاالحق جیسے آمر قومی جھنڈوں میں لپیٹ کر اعزازات کے ساتھ دفنائے جائیں گے تب تک ہم سقوط ڈھاکہ جیسے کئی سانحات کی زد میں رہیں گے۔ جب تک بچوں کو مسخ شدہ تاریخ پڑھا کر بنگالیوں کو مجرم قرار دے کر تمام جنگیں جیتنے کا پراپیگینڈہ ختم نہیں ہوگا تب تک اس ملک میں بسنے والی قومیتیں یکجا نہیں ہوں گی۔

قومیں محبت اور حقوق کی فراہمی سے یکجا رہتی ہیں نہ کے بندوق کے زور پر۔ اپنا نیشنل نیریٹو علم و تحقیق ایجادات اور امن پسندی پر قائم کیجئے ہمیں سقوط ڈھاکہ جیسا زخم دوبارہ نہیں سہنا پڑے گا۔ آج بھی سقوط ڈھاکہ کے مجرموں کو کم سے کم عوام سے روشناس کروانا بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ سچ بہرحال وقتی طور پر دبایا تو جا سکتا ہے لیکن چھپایا نہیں جا سکتا اور تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے یہ تمام واقعات کو اپنے سینے میں محفوظ رکھتی ہے۔

جناح کا پاکستان آج بھی سقوط ڈھاکہ کے زخم سے چور چور آپ سب سے اپنے مجرموں کی نشاندہی کا مطالبہ کر رہا ہے اور چلا چلا کر کہ رہا ہے کہ غاصبانہ اور متعصبانہ پالیسیاں بنانا بند کیجئے یہ وطن کسی اور سقوچ ڈھاکہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔