مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں سقوط اسلام آباد کے بعد بہت سے لوگوں کو یہ خوش فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ اب یہ طوفان شاید تھم جائے۔ امید کی جا رہی تھی کہ بلوائی اور ان کے آقا وفاقی وزیر قانون کی قربانی کے بعد فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے موجودہ حکمران جماعت کو اس کی آخری سانسیں آرام سے لینے دیں گے اور راوی اس کے بعد ہر سو چین ہی چین لکھے گا۔ اس سانحے کے بحیثیت قوم ہم پر مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے اس جانب سے بہت سے خوش فہم افراد نے آنکھیں چرانا ہی مناسب سمجھا۔ حکومت کا بلوائیوں کے سامنے جھک جانا دراصل سقوط اسلام آباد کہا جا سکتا ہے۔ سقوط اسلام آباد کے مختلف پہلو ہیں جنہوں نے پاکستان کے ریاستی، سیاسی اور معاشرتی ڈھانچوں کی نوعیت یکسر تبدیل کر دی ہے۔ ریاستی ڈھانچہ جو پہلے سے ہی کھوکھلا اور کمزور تھا اس کو مزید کمزور بناتے ہوئے غیر ریاستی عناصر کو بھی اس میں شراکت دار بنا دیا گیا۔ اب کوئی بھی ایسی غیر ریاستی قوت جو مذہب کے نام پر چند ہزار افراد پر مشتمل جتھوں کو جلاو گھیراو کیلئے باہر نکال سکتی ہے نہ صرف وہ ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے بلکہ من و عن اپنے مطالبات بھی منوا سکتی ہے۔ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کو بھی احساس ہوگیا کہ موٹر سائیکل سواروں کو پکڑنے یا معمولی چوروں کو گرفتار کرنے کے علاوہ ان کے پاس رتی برابر بھی اختیار نہیں۔
جس بے رحمانہ انداز میں پولیس اور ایف سی کے نوجوانوں کو بلوائیوں سے پٹوانے کے بعد انہیں بے یار و مددگار چھوڑا گیا اس کے بعد کوئی احمق ہی ان اداروں سے مستقبل میں جتھوں کو روک کر ریاست کی رٹ بحال کروانے کا سوچ سکتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہم نے 90 ہزار فوجی یرغمال بنوائے تھے اور سقوط اسلام آباد کے بعد ہم نے بیس کڑوڑ عوام کو یرغمال بنوا دیا۔ در اصل جب ریاست کی رٹ بحال کروانے والے ادارے، دہشت گردوں سے لڑنے کے بجائے ثالثی کرواتے پھریں تو پھر ریاست کا اپنے ہی ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنا کسی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اس "سرینڈر" کے بعد ریاست کس منہ سے فاٹا اور بلوچستان میں اپنی رٹ بحال کروانے کیلیئے طاقت کا استعمال کروا سکتی ہے؟ جب کہ ریاست کے سب سے طاقتور ادارے کے سربراہ نے بلوائیوں کو اپنے لوگ قرار دیتے ہوئے ریاست کے سربراہ کو خود ان کے آگے جھک جانے کا مشورہ دیا تھا۔ دوسری کاری ضرب ہمارے سیاسی ڈھانچے پر لگی ہے۔ ملک کی ایک اور مقبول سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کو مذہب کے نام پر کھیلے گئے اس کارڈ کے بعد کمزور کرتے ہوئے اسے تقریبا ختم کر دیا گیا ہے۔ قادیانی نواز جماعت ہونے، توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی جیسے سنگین الزامات کے بعد اگر یہ جماعت انتخابی مہم بھی چلا پائے تو یہ اسکے لئیے کسی معجزے سے کم نہ ہوگا۔ دوسری جانب اس جماعت کے کلیدی رہنماوں کی زندگیوں کو داو پر لگا کر مکمل طور پر بندوبست کر لیا گیا ہے کہ نواز شریف اور اس کی سیاسی جماعت کو اس کے سیاسی قلعہ پنجاب میں دفن کر دیا جائے۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی نے جس قدر کم ظرفی اور موقع پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس منصوبے میں پس پشت قوتوں کا ساتھ دیا وہ تاریخ میں شاید ایک سیاہ باب کے نام سے جانا جائے گا۔ رہی بات پاکستان تحریک انصاف کی، تو اس سے گلہ بے سود ہے کیونکہ تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ سیاسی مفاد پرستوں کا ایسا ٹولہ ہے جس کا واحد نظریہ کسی بھی قیمت پر اقتدار کے منصب اعلی تک رسائی ہے۔
نواز شریف کو مذہبی کارڈ سے سیاسی طور پر ہلاک کرنے والی طاقتیں بریلوی مکتبہ فکر کو استعمال کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ کل کلاں کو وہابی یا دیوبندی مکتبہ فکر کو اگر سیاسی لڑائی میں کسی دوسرے فریق کی جانب سے استعمال کیا گیا تو اس کا نتیجہ ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ سقوط اسلام آباد کا تیسرا اثر براہ راست اثر ہمارے سماجی ڈھانچے پر پڑا ہے اور اس کے اثرات سے ہماری آنےوالی نسلیں بھی محفوظ نہیں رہنے پائیں گی۔ اگر کسی کے ایمان کا فیصلہ فرقہ واریت، مسلکی نرگسیت پسندی اور تعصب سے بھرے ہوئے مولوی حضرات یا نام نہاد علما نے کرنا ہے تو پھر اس معاشرے میں بسنے والا کوئی بھی شخص نہ تو محفوظ ہے اور نہ ہی کھل کر یا آزادی سے زندگی بسر کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ احمدی، مسیحی اور ہندو برادری جس خوف اور ڈر کے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے شاید اب اسی خوف اور ڈر کے تلے وہ مسلمان بھی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے جو مذہب کے ٹھیکہ داروں کی خود ساختہ تعلیمات کو ماننے سے انکاری ہیں۔ دوسری جانب معاشرے کی فکری بلوغت کی بنیاد مذہب اور مذہبی ٹھیکیداروں کے حوالے کرکے سائنس ٹیکنالوجی اور فلاسفی کے میدانوں سے راہ فرار اختیار کرکے اصلاف پرستی کے موذی مرض کو معاشرے میں مزید پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ایک ایسا معاشرہ جہاں پہلے سے ہی کتھارسس کیلئے نفرت اور تعصب کا سہارا لیا جاتا ہو وہاں مولوی خادم حسین جیسے شدت پسندوں کی سربراہی میں جتھوں کو ریاست کے مقابلے میں لا کھڑا کرنے اور پھر انہیں ایک قوت کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد معاشرے میں سرکاری طور پر نفرت تعصب اور شدت پسندی کو ایک جواز فراہم کر دیا گیا ہے۔ ایک مولوی پیر یا عالم کو آفاقی معاملات کا ٹھیکیدار بنانے کا نتیجہ ہم نے گزشتہ ستر برسوں میں کبھی فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور کبھی خودکش دھماکوں کی صورت میں بھگتا۔ اب انہی مولویوں پیروں اور عالموں کو سیاسی و سماجی اکائیوں کا ٹھیکیدار بنانے کا نتیجہ ہم شاید خانہ جنگی کی صورت میں دیکھیں گے۔
بدقسمتی سے اپنے اپنے مسلک، فرقے یا عقیدے کی عینک لگائے ہوئے ہم سب افراد نے اجتماعی طور پر اس معاشرے کو نفرت اور شدت پسندی کی آگ میں جھونکنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا اس وقت مریخ پر زندگی کے تصور پر بحث کر رہی ہے۔ انسانی دماغ کی پیوند کاری سے لیکر مہلک بیماریوں کے علاج دریافت کر رہی ہے کائنات کی ہیئت پر مباحث اور غورو فکر جاری ہے جبکہ ہمارے ہاں فکری مباحث اور تحقیق کا محور ایک دوسرے کے عقائد کو پرکھنا، ایک دوسرے کے فرقوں اور مسلکوں کو نیچا دکھانا یا پھر احمدیوں اور دیگر اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنانا ہے۔ فکری و نظریاتی طور پر دنیا کی جدید تہذیبوں سے شکست کھائی ہوئی تہذیب اس قسم کی خود کش سوچ اور نظریات کا شکار رہ کر کب تک اپنا وجود اور تشخص برقرار رکھ پائے گی اس کا جواب ہر ذی شعور شخص بجوبی جانتا ہے۔ ایسے میں ریاست کا آگے بڑھ کر معاشرے کو ہائی جیک کرنے والی اس سوچ کو شکست دینے کے بجائے اس سوچ کے حامل گروہوں کے سامنے سرینڈر کرنا ہمارے عہد کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ تحریک لبیک کے ساتھ کیا گیا معاہدہ سقوط ڈھاکہ کے معاہدے کی مانند ہے کیونکہ ریاست نے اس معاہدے پر دستخط کرکے خود اپنی رٹ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی محاذوں پر مذہب کو ہتھیار بنانے والے شدت پسندوں کی اجارہ داری تسلیم کر لی ہے۔