سعودی عرب ان دنوں پھر سے پاکستانی سیاسی سرگرمیوں کا محور ہے۔ شریف برادران کی سعودی اعلی حکام سے ملاقاتوں کو لیکر وطن عزیز میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ ہر تجزیہ کار صحافی یا دانشور اپنے اپنے اندازوں اور اپنے اپنے "باس" سے لی گئی گائیڈ لائن کے تحت ایک نئے این آر او کا شور مچا رہا ہے۔ چونکہ مشرف دور میں شریف برادران کی رہائی میں سعودی عرب کا کردار کلیدی تھا اس لئیے عوام میں بھی تجسس پایا جاتا ہے کہ کیا واقعی ایک بار پھر شریف برادران کی مدد کرنے سعودی شاہی خاندان میدان میں آ چکا ہے؟۔ اس سوال کا جواب حالات و واقعات کے تناظر میں کچھ یوں ہے کہ سعودی شاہی خاندان کو اس دفعہ بذات خود دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ نے مدد کرنے کی درخواست کی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے حال ہی میں مسلسل سعودی عرب کے دورے اور راحیل شریف کی وہاں موجودگی اس ضمن میں سیاسی حالات کا ادراک رکھنے والوں کیلئے واضح اشارہ ہیں۔
اگر شاہی خاندان کو شریف برادران کو بچانا مقصود ہوتا تو شاید ان کی جانب سے مداخلت اسی وقت ہو جاتی جب نواز شریف کو عدلیہ کے زریعے سے شکار کیا جا رہا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ سعودی شاہی خاندان کی کمان میں تبدیلی اور ان کا پاکستانی دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ سے بڑھتا ہو کرب پہلے ہی شریف برادران کو نئی سعودی ایسٹیبلیشمنٹ کی گڈ بکس سے باہر کر چکا تھا اور جب یمن میں پاکستانی فوج بھیجنے کے معاملے پر نواز شریف نے ٹال مٹول کے بعد بال پاکستانی پارلیمنٹ کی گود میں پھینکتے ہوئے معذرت کر لی تھی تو اس کے بعد سعودی ایسٹیبلیشمنٹ اور نواز شریف کے تعلقات میں بچھی کھچی گرمجوشی بھی ختم ہو گئی تھی۔ جبکہ اس کے برعکس راحیل شریف کا سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کا کمانڈر بننا اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا سعودی عرب کو پس پردہ سپورٹ دینا سعودی عرب اور پاکستانی دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنا۔ نواز شریف کو عدلیہ کے ذریعے شکار کرنے کے بعد ایسٹیبلیشمنٹ کا خیال تھا کہ نواز شریف کی نااہلی ان کی جماعت مسلم لیگ نون میں دراڑیں ڈال دے گی اور یوں ان کی جماعت کے حصے بخرے ہو جایئں گے۔ لیکن اس کے برعکس نواز شریف کا جی ٹی روڈ کا سفر اور ان کی جارحانہ اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ سیاست نے نہ صرف ان کی جماعت کو مستحکم رکھا بلکہ روایتی ایسٹیبلیشمنٹ کے حامی صوبے پنجاب میں نواز شریف نے اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانئیے کی بنیاد رکھ ڈالی۔ پنجاب کی عوام نے بھی عدلیہ کا فیصلہ تسلیم نہ کیا اور نواز شریف کے جلسوں جلوسوں میں اس کی جھلک بھی دیکھنے کو ملی۔
جب عوامی رد عمل ایسٹیبلیشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف آیا تو صورتحال گھمبیر ہو گئی۔ ملکی تاریخ میں ہہلی دفعہ ایسٹیبلیشمنٹ کے حامی صوبے پنجاب سے ایسٹیبلیشمنٹ کے خلاف آوازیں اٹھیں۔ چنانچہ نواز شریف کو مختلف ذرائع سے پیغام بھجوایا گیا کہ اگر وہ سیاست ترک کر کے خاموش ہو جائیں تو ان کے خلاف مزید کاروائی نہیں کی جائے گی۔ لیکن نواز شریف نے اس بار کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کر دیا۔ تین دفعہ ایسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں ڈسے جانے کے بعد نواز شریف نے فیصلہ کن لڑائی لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ 1977 کی پی این اے کی تحریک کی مانند پہلے خادم حسین رضوی کے ذریعے نواز شریف اور اس کی جماعت کے خلاف مذہب کی بنیادوں پر انتہائی خطرناک تحریک چلائی گئی اور اب طاہر القادری، پیر حمید الدین سیالوی اور عمران خان کے ذریعے ایک بار پھر نئی تحریک چلائے جانے کا امکان ہے۔ خادم رضوی کے زریعے مذہبی کارڈ کھیل کر نواز شریف کو پسپائی پر تو مجبور کیا گیا لیکن اس کی قیمت ریاست اور ایسٹیبلیشمنٙٹ کو بہت بھاری پڑی۔ جس پر مزید ستم یہ ہوا کہ اس خطرناک ترین کارڈ کے کھیلے جانے کے باوجود نواز شریف کی جماعت کو نہ تو توڑا جا سکا اور نہ ہی مسلم لیگ نون کے ووٹر کو اس کی جماعت سے بددل کیا جا سکا۔ اب طاہر القادری، عمران خان اور پیر حمیدالدین سیالوی کے زریعے دھرنے اور احتجاجی تحریک چلوانے سے پہلے نواز شریف کو ایک بار پھر قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ گھر بیٹھ جائیں اور ایسٹیبلیشمنٹ مخالف سیاست سے خود کو اور اہنی جماعت کو دور رکھیں، بصورت دیگر نواز شریف کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کی سیاست کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ چونکہ دنگے فساد کے ذریعے حکومت گرانے سے نہ صرف پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے بلکہ بین الاقوامی دنیا سے بھی ایک منفی فیڈ بیک سامنے آ سکتا ہے اس لئیے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ نے سعودی شاہی خاندان سے درخواست کی ہے کہ نواز شریف کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ سیاست ختم کرتے ہوئے خاموشی اختیار کریں۔
یہ طاقت کی بساط پر چلے جانے والی ایک اچھی چال ہے کیونکہ نواز شریف کیلئے سعودی شاہی خاندان کو ناں کہنا بے حد مشکل ہو گا اور اگر وہ سعودی شاہی خاندان کی بات مانتے ہیں تو ان کی عوامی سیاست کو اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ نواز شریف خود طاقت کی بساط کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور یہ بات ان سے بہتر شاید کوئی نہیں سمجھتا ہو گا کہ ایک دفعہ اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ سیاست کا علم تھام لیا جائے تو پھر واپسی کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ تاریخی طور پر اخس کی مثالیں وطن عزیز میں موجود ہیں۔ ذوالفقار بھٹو اور بینظیر بھٹو نے بارہا سمجھوتے کئیے لیکن بالآخر دونوں کو ہی غیر فطری انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ دراصل بدقسمتی سے جب وطن عزیز میں کوئی جماعت یا رہنما انتخابی میدان میں ناقابل شکست بن جائے تو اس کو سیاست کے ساتھ ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ایسی صورت میں نواز شریف کیا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہوں گے اس کا واضح جواب تو آئندہ بننے والی تاریخ بہتر طور پر دے سکتی ہے۔ لیکن نواز شریف کی موجودہ سیاست کے انداز کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی طور ہیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ نواز شریف کو اس وقت صرف آئندہ انتخابات کے منعقد ہونے کی گارنٹی چائیے اور یہ گارنٹی سعودیہ نہ بھی دے تو واشنگٹن یا لندن سے حاصل کر لی جائے گی۔
قرائن بتاتے ہیں اگر سعودی خاندان سے ڈیل اردوان کے وزیر اعظم کی موجودگی میں ہوئی تو پھر انتخابات میں تمام فریقین کو اترنے کا موقع دینا پڑے گا یعنی انتخابات سے پہلے نواز شریف کو کلین چٹ بھی مہیا کی جائے گی۔ لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ ایسٹیبلیشمنٹ کسی بھی طور نواز شریف کو دوبارہ انتخابی سیاست میں اترنے کا موقع نہیں دینا چاہتی، جبکہ نواز شریف کے لیئے اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا حل ناقابل قبول ہو گا۔ اس لئیے موحودہ سعودی دورے سے کسی بھی قسم کی ڈیل کے بننے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ موجودہ صورتحال ویسے بھی نواز شریف کیلئے انتہائی موافق ہے جس میں ایک جانب وہ حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی ہیں۔ انتخابی مہم میں اپنی نااہلی کو لے کر وہ پنجاب سے باآسانی ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس صورتحال میں ڈیل کر کے نواز شریف اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے۔ دوسری جانب یہی بات ایسٹیبلیشمنٹ پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ اگر ڈیل ہو جائے تو اسے مائنس نواز شریف کے فارمولے سے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی جو کہ ایسٹیبلیشمنٹ کیلئےقطعا سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ آثار بتاتے ہیں کہ اس دفعہ سعودی عرب سے ڈیل کے بجائے دونوں فریقین کو محض صبر سے کام لینے اور افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کی نصیحت کے ساتھ محض دعاوں کے سہارے رخصت کیا جائے گا۔