1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. شوق دا کوئی مول نہیں

شوق دا کوئی مول نہیں

پانامہ لیکس کے سکینڈل کےعدالتی فیصلے کے بعد پاکستان کے اگلے متوقع وزیر اعظم چوہدری نثار یا پھر کلثوم نواز میں سے کوئی ایک ہوگا۔ یہ افواہ میڈیا کے ایک حصے میں گردش کر رہی ہے۔ آج سے اڑھائی برس قبل ڈی چوک پر قادری عمران دھرنے کے دنوں میں بھی یہ بازگشت سنائی دیتی تھی۔ لیکن حکمران جماعت کے باخبر ذرائع کے مطابق اگر نواز شریف کو جانابھی پڑے تو بھی کسی بھی صورت چوہدری نثار کو حکمران جماعت سے تائید حاصل نہیں ہوگی۔

آخر یہ معاملہ ہے کیا جب بھی حکمران جماعت دباو کا شکار نظر آتی ہے یا اس کے جانے کے امکانات نظر آنے لگتے ہیں تو چوہدری نثار کا ہی نام کیوں سامنے آتا ہے۔ چوہدری نثار مسلم لیگ نون کے ان رہنماوں میں سے ہیں جنہیں مشرف دور میں بھی کچھ نہیں کہا گیا۔ ایسٹیبلیشمنٹ کے قریبی حلیف سمجھے جانے والے چوہدری نثار کیا واقعی میں ڈبل گیم پلے کر رہے ہیں غالبا اس کا جواب بے حد جلدی ہمیں ملنے والا ہے۔ نواز شریف کے پاس اس وقت آپشن نہ ہونے کے برابر ہے اور کوئی سیاسی معجزہ ہی اب انہیں وزارت عظمی کی کرسی پر فائز رکھ سکتا ہے۔

اپوزیشن کا بڑتا ہوا دباو اور عوامی ردعمل اب نواز شریف کے خلاف ہے۔ یعنی جو مومینٹم عمران خان پچھلے اڑھائی برس سے چاہ رہے تھے وہ انہیں حاصل ہو چکا ہے۔ پس پشت قوتوں کی انگلی اٹھانے کی دیر ہے خان صاحب اپنے سپورٹرز سمیت رائے ونڈ پر چڑھ دوڑیں گے اور اس بار حکومت کسی بھی دھرنے کو سہنے کی تاب نہیں رکھتی۔ رائے ونڈ میں اگر دھرنہ ہوا تو پھر یہ نواز شریف کے استعفی تک نہیں رکے گا بلکہ نظام کو لپیٹنے کا باعث بھی بنے گا۔

اپنی آخری کوشش کیلئے نواز شریف اس وقت لندن میں موجود ہیں یاد رہے لندن سے ہی عالمی طاقتوں کی گارنٹی کی بدولت ملک میں جمہوریت کی واپسی ممکن ہوئی تھی۔ اس وقت نواز شریف کی سیاسی بقا کا تمام تر معاملہ عالمی ایسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ان کی گفت و شنید اور مزاکرات کے نتیجے پر منحصر ہے اگر تو عالمی طاقتوں نے وزن نواز شریف کی پشت پر رکھا تو۔ پھر سے طاقت کی بساط پر ایک نیا فارمولہ ترتیب دیا جائے گا۔ اور ایک نیا این آر او جاری کیا جائے گا۔ سیاست کے میدان میں حریف کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کریں گے اور یہاں پاکستان میں بیٹھی عوام خوش ہوتی رہے گی کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی تو ان کی خالی تجوریاں بھر جائیں گی۔

ملک کی لوٹی ہوئی دولت ایک ایسی لال بتی کی مانند ہے جس کے پیچھے عوام کو دہائیوں سے لگا کر پس پشت قوتیں سیاسی بساط پر کٹھ پتلیاں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ اور اس لوٹی ہوئی دولت کے بیانیے کو اتنا مضبوط بنا دیا گیا ہے کہ چائے خانوں پر کام کرتے بیروں سے لیکر گلی میں جھاڑو لگاتے خاکروب تک یہ سوچ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت وطن واپس آتے ہی ان کے ہاتھوں میں تھما دی جائے گی۔ اور یکایک ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگے گیں۔ اب ان بیچاروں کو کون یہ سمجھا سکتا ہے کہ ان کی زندگی میں تبدیلی سڑکوں کے جال بچھنے کارخانوں کے لگنے صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔

لوٹی ہوئی دولت کا حساب کیا جائے تو وطن عزیز کے ناجائز زرعی مربعوں سے لے کر ہاوسنگ سکیمز تک کی مالیت سینکڑوں کھرب روپے سے زیادہ کی بنتی ہے۔ اور کہتے ہیں حساب اور احتساب وہ ہوتا ہے جو سب کا ہو نا کہ صرف گنے چنے افراد یا اداروں کا۔ خیر اس سارے منظر نامے کے بعد ایک چیز تو بالکل واضح ہے کہ وطن عزیز میں اقتدار کے سودے بیرونی طاقتوں کے ایما پر ہی ہوتے ہیں۔ اور ایک سیدھی سی بات ہے کہ بیرونی طاقتوں کی ایما پر سودے کرکے اقتدار میں آنے والے نہ تو عوام کی خدمت کرنے آتے ہیں اور نہ ہی ملکی ایسٹیبلیشمنٹ سے اختیارات کا توازن لے کر جمہوریت کے حق میں کرنے۔

نواز شریف ہوں یا آصف زرداری یا پھر عمران خان یہ تمام لوگ ایک ہی سکے کے مختلف روپ ہیں اور وطن عزیز کی پس پشت قوتوں کو یہ خوب بھاتے ہیں کیونکہ انہیں زیر کرنا کوئی بھی مسئلہ نہیں۔ پس پشت قوتوں کو بھی احکامات عالمی طاقتوں سے ہی ملتے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ پس پشت قوتیں قومی دفاع کا چورن ملک میں اچھی طرح بیچ کر گڈ بوائے کا روپ دھارے رکھتی ہیں اور عوام خود منتیں کرکے انہیں اپنا خون چوسنے کا کہتے ہیں۔ یعنی ہمارا حال وہ ہے کہ ہم خود خون چوسنے والی جونکوں کی شکلیں بدل بدل کر خوشی سے اپنا خون چوسواتے ہیں اور پھر خون کے چوسے جانے کی دہائیاں بھی دیتے ہیں۔

آوے ہی آوے جاوے ہی جاوے کے نعرے اگر ملک و قوم کی ترقی کے ضامن ہوتے تو امریکہ میں سیلیکان ویلی کی طرز پر ایک ویلی ان نعروں کی تشکیل کیلئے بھی کب کی قائم ہو چکی پوتی۔ اگر محض چہرے بدلنے سے نظام تبدیل ہو سکتے تو امریکہ اور انگلستان میں سول نافرمانی اور سیاسی انقلابات کبھی نہ آتے۔ لیکن ہم لوگ سوچتے ہی کب ہیں۔ ہمیں بوریت اور یکسانیت کا احساس ہو تو محض اس بوریت کو دور بھگانے کیلئے فوجی آمروں کو ہٹا کر سیاستدانوں کو اپنے سر پر بٹھا لیتے ہیں اور جب سیاستدانوں کی شکلوں سے جی بھر جائے تو پھر فوجی آمروں کو پکارنے لگتے ہیں۔

عالمی منڈی ہمارے اس مہنگے شوق سے بخوبی واقف ہے اس لیئے طلب اور رسد کے بنیادی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے وقتا فوقتا کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کے نام پر اپنی مصنوعات ہمیں بیچتی ہی رہتی ہے۔ ہم لوگوں کے اس مہنگے اور انوکھے شوق نے آج تک اس ملک میں کوئی بھی نظام یا قائدہ لاگو ہونے ہی نہیں دیا۔ آنے والی نسلوں کا مستقبل تک گروی رکھوا کر ہم اس کھیل تماشے سے انا کی تسکین حاصل کرتے ہیں اور وطن عزیز کے چہرے کو بدنما بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

خیر جب ہمیں خود یہ کھیل تماشہ پسند ہے تو پھر شکایت کیسی لہازا آئیے اس کھیل تماشے کو جاری رکھتے ہوئے زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگائیں اور پھر سے اپنی اپنی دنیاؤں میں مصروف ہو جائیں۔ آخر کو ملک سے پولیو غربت جہالت افلاس بھوک ناانصافی کرپشن اور تمام برائیوں کا خاتمہ یہی نعرے اور محض ہمارا یہ چہرے بدلنے کا مہنگا ترین اور انوکھا شوق ہی تو پورا کر سکتا ہے۔ ویسے بھی پنجابی کی مشہور کہاوت ہے کہ "شوق دا کوئی مول" نہیں۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔